Maktaba Wahhabi

109 - 516
سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں۔ جب اللہ نے پیغمبروں کو یہ اختیار نہیں دیا، جن کو اپنی صداقت کے ثبوت کے لیے ان معجزوں کی ضرورت بھی تھی، تو کسی ولی کو یہ اختیار کیونکر مل سکتا ہے؟ بالخصوص جبکہ ولی کو اس کی چنداں ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے، اس لیے معجزہ ان کی ضرورت تھی۔ لیکن اللہ کی حکمت و مشیت اس کی مقتضی نہ تھی، اس لیے یہ قوت کسی نبی کو نہیں دی گئی۔ سب سے بڑے اولیاء، اللہ کے رسول اور نبی ہیں اور ان کے بعد ایمان والے۔ ان کے ہاتھوں اللہ نے جو کرامات ظاہر کی ہیں، جیسے تھوڑے طعام کو زیادہ کردینا، تکالیف اور بیماریوں کو دور کرنا، سمندروں میں سے گزر جانا اور جلتی آگ میں کود کر بھی محفوظ و مامون رہنا وغیرہ، یہ سب معجزات ہی کی قبیل سے ہیں۔ تاہم معجزہ اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزہ ایک قسم کا چیلنج ہوتا ہے لیکن کرامت میں چیلنج نہیں ہوتا۔ تحدِّی، یعنی چیلنج میں رسول اپنے مخاطبین سے فرماتا ہے کہ میں اگر اللہ کے حکم سے یہ کام کردوں تو تم تصدیق کروگے؟ اگر پھر بھی تسلیم نہ کیا تو اللہ تمھیں اس کی سزا دے گا۔ سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ انسان احکامِ الٰہی کی پابندی کرے، شرعی اوامر پر عمل پیرا رہے اور محرمات و منہیات سے اجتناب کرے۔ قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر اولیاء اللہ کی کرامات مذکور ہیں، مثلاً: حضرت مریم علیہا السلام کے عبادت خانہ میں اللہ کی طرف سے کھانا آنا، اصحاب کہف کا 309 سال تک سوئے رہنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالے جانے پر آگ کا ٹھندا ہوجانا، موسیٰ علیہ السلام کا اپنے ساتھیوں سمیت دریا میں سے گزر جانا، حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ باہر نکل آنا، حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک شخص کا پلک جھپکتے ہی ملکۂ سبا کا تخت لاکر پیش کردینا وغیرہ۔ ’’ربانی اولیاء‘‘ کی کرامت اور شیطانی احوال میں فرق یہ ہے کہ اگر ’’خرق عادت‘‘ بات ایک متقی، پرہیزگار اور اللہ کی شریعت پر چلنے والے کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو یہ اللہ کی طرف سے اعزاز اور ہمّت افزائی ہے اور اگر ایسا کام ایک خبیث انسان، اللہ کی
Flag Counter