اگر کوئی کہے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے لیے دو ہاتھوں کا اثبات ہو رہا ہے، جن کے ساتھ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، تو ہم بھی اس کے لیے ان کا اثبات کریں گے، اس لیے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو کہ علم اور صدق سے صادر ہوا ہے، اللہ کا کلام، ہر کلام سے خوبصورت، فصیح اور واضح ہے، لہٰذا اس کے لیے دو ہاتھوں کا نہ ہونا غیر ممکن ہے، مگر اکثر لوگ یہی اعتقاد رکھتے ہیں ، اب اگر ان کی بات کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاذ اللہ قرآن گمراہی ہے، کہ وہ اللہ کا ایسا وصف بیان کرتا ہے جو اس میں موجود ہی نہیں ہے، مگر یہ ممتنع ہے، جب صورت حال یہ ہے تو پھر آپ کے لیے اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ٹھہرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں جن کے ساتھ اس نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔
اگر آپ یہ کہیں کہ ہاتھوں سے مراد نعمت یا قدرت ہے۔
تو ہم کہیں گے کہ دو ہاتھوں سے یہ معنی مراد لینا ممکن ہی نہیں ، الا یہ کہ آپ اپنے رب کے خلاف جرأت کا مظاہرہ کریں اور اس کے کلام کو ہمارے ذکر کردہ اوصاف اربعہ کی ضد کے ساتھ موصوف ٹھہرائیں ۔ اس شخص سے ہمارا سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے: (بیدیَّ) کا لفظ استعمال فرمایا، تو کیا اسے اپنے دونوں ہاتھوں کا علم تھا؟ اگر وہ اس کا جواب اثبات میں دے تو اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ کیا وہ اپنے اس قول میں صادق ہے؟ اگر وہ یہ کہے کہ ہاں وہ بلا شک صادق ہے اور وہ اسے غیر عالم اور غیر صادق کہنے کی جرأت نہ کر سکے، اور نہ ہی وہ یہ کہہ سکے کہ اللہ تعالیٰ نے دو ہاتھوں کی تعبیر اختیار کی ہے وہ کہنا تو کچھ چاہتا تھا مگر وہ کچھ کہنے سے بے بس ہوگیا، اور وہ نہ ہی یہ کہہ سکتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو گمراہ کرنے کی غرض سے ان سے یہ چاہا کہ وہ ان صفات پر ایمان لائیں جو اس میں موجود ہی نہیں ہیں ۔ جب وہ ان باتوں میں سے کوئی بھی بات کرنے سے قاصر ہے تو ہم اس سے یہ سوال کریں گے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کے لیے دو ہاتھ ثابت کرنے سے روک رہی ہے؟ اپنے رب سے معافی مانگیں ، اس کے سامنے توبہ کریں اور یوں کہیں : میں اس چیز پر ایمان لایا جس کی اس نے اپنی ذات کے بارے میں خبر دی، اس لیے کہ وہ اپنے اور دوسروں کے بارے میں بہتر جانتا ہے، اس کی بات سب سے سچی اور خوبصورت ہے۔
مؤلف رحمہ اللہ نے تین اوصاف کا ذکر کیا ہے جبکہ ہم نے اپنی طرف سے چوتھے وصف کا اضافہ کر دیا اور وہ ہے لوگوں کے سامنے حق واضح کرنا اور ان کے لیے ہدایت کا ارادہ کرنا۔
﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ (النساء: ۲۶)
’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے (احکام) واضح کرنا چاہتا ہے اور تمہاری ان لوگوں کے طریقوں کی طرف راہنمائی کرنا چاہتا ہے جو تم سے پہلے ہو گزرے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے تمام رسول صادق و مصدوق ہیں
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(( ثُمَّ رُسُلُہُ صَادِقُوْنَ مُصْدُوْقُوْنَ ؛ بِخِلَافِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ عَلَیْہِ مَا لَا یَعْلَمُوْنَ۔))
|