آیات صفات کے معنی کا اثبات کرتے تھے اور یہ دو طرح سے ثابت ہے۔
اولاً: ان کا یہ فرمانا: ’’انہیں اسی طرح گزارو جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں ۔‘‘ اور یہ سبھی کے علم میں ہے کہ یہ الفاظ معانی کے لیے ہی وارد ہوئے ہیں عبث ہرگز نہیں ہیں ۔ جب ہم انہیں اسی طرح گزاریں گے جس طرح وہ وارد ہوئے ہیں تو اس سے ان کے معنی کا اثبات کرنا بھی لازم آئے گا۔
ثانیاً: ان کا قول ’’بلا کیف‘‘ اس لیے کہ کیفیت کی نفی اصل معنی کے وجود پر دلالت کرتی ہے، کسی چیز کی کیفیت کی نفی لغو اور عبث نہیں ہوا کرتی۔
الغرض! علمائے سلف کا یہ مشہور مقولہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ان نصوص کے مفہوم ومعنی کا اثبات کرتے تھے۔
[ولا تمثیل] … یعنی من غیر تمثیل،اہل سنت اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے مماثل قرار نہیں دیتے۔ نہ اس کی ذات میں اور نہ ہی صفات میں ۔
تمثیل کا مطلب ہے: کسی چیز کے مماثل کا ذکر کرنا۔ اس کے اور ’’تکییف‘‘ کے درمیان عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے۔ اس لیے کہ ہر ممثل مکیف ہوتا ہے۔ مگر ہر مکیف ممثل نہیں ہوتا اور یہ اس لیے کہ تکییف ایسی کیفیت کے ذکر سے عبارت ہے جو مماثل کے ساتھ مقرون نہیں ہوتی۔ مثلاً آپ کہتے ہیں : میرے قلم کی کیفیت یہ یہ ہے، پھر اگر اسے مماثل سے ملاتے ہوئے یہ کہا جائے کہ یہ قلم اس قلم جیسا ہے تو یہ تمثیل ہوگی، اس لیے کہ میں نے ایک ایسی چیز کا ذکر کیا جو دوسری چیز کے مماثل ہے اور اس مماثل کے ساتھ میں نے قلم کی شناخت کروائی۔
تمثیل کی سمعی ، عقلی اور فطری نفی کے دلائل
اہل سنت اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کا اثبات بدون مماثلت کرتے ہیں ، چنانچہ وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے لیے زندگی ہے مگر وہ ہماری زندگی جیسی نہیں ہے اس کے لیے علم ثابت ہے مگر وہ ہمارے علم جیسا نہیں ہے، اسی طرح اس کا چہرہ بھی ہے، آنکھیں بھی ہیں اور ہاتھ بھی ہیں ، مگر اس کا چہرہ ہمارے چہرے جیسا، اس کی آنکھیں ہماری آنکھوں جیسی اور اس کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں جیسے نہیں ہیں … وہ جمیع صفات میں اسی طرح کہا کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی مخلوق کی صفات سے مماثل نہیں ہیں ۔ ان کے پاس اس کے سمعی دلائل بھی ہیں اور عقلی بھی۔
۱ سمعی دلائل: خبر کے حوالے سے یہ ارشاد باری تعالیٰ:
﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ:۱۱) ’’اس جیسی کوئی شے نہیں ہے۔‘‘
اس آیت میں صراحتاً تمثیل کی نفی کی گئی ہے۔
﴿ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّاo﴾ (مریم: ۶۵) ’’کیا تم اس کے کسی ہم نام کو جانتے ہو؟‘‘
اگرچہ یہ انشائیہ جملہ ہے مگر خبر کے معنی میں ہے۔ اس لیے کہ یہ استفہام بمعنی نفی ہے۔ اسی طرح یہ ارشاد ربانی:
﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌo﴾ (الاخلاص: ۴) ’’اس کا کوئی ہم سر نہیں ہے۔‘‘
|