یقینا گمراہ ہے، اسی طرح وہ شخص بھی گمراہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ ابوبکرؓ و عمرؓ کے بعد خلافت علی رضی اللہ عنہ کا حق ہے۔ اس لیے کہ وہ اجماع صحابہ کا مخالف ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وذلک انہم یومنون أن الخلیفۃ بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علی رضی اللہ عنہم ۔))
’’اہل سنت کا اس بات پر ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر، پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین مسلمانوں کے خلیفہ ہیں ۔‘‘
شرح:…مسئلہ خلافت کے بارے میں اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے۔
خلافت میں اختلاف کرنے والا گدھے سے بڑھ کر گمراہ ہے
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ومن طعن فی خلافۃ احد من ہولاء، فہو أضل من حمار اہلہ۔))
’’ان میں سے کسی ایک کی خلافت میں طعنہ زنی کرنے والا اپنے گھر والوں کے گدھے سے بھی بڑھ کر گمراہ ہے۔‘‘
شرح:…ان خلفائے اربعہ میں سے کسی ایک کی خلافت میں طعنہ زنی کرتے ہوتے ہیں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ خلافت کا مستحق نہیں تھا یا وہ اپنے سے پہلے خلیفہ سے زیادہ اس کا استحقاق رکھتا تھا تو ایسا شخص اپنے گھر والوں کے گدھے سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔
مؤلف رحمہ اللہ نے یہ تعبیر اس لیے اختیار فرمائی کہ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تعبیر ہے۔ یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ ایسا شخص اپنے گھر کے گدھے سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہے۔ گدھے کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام حیوانات سے بڑھ کر کند ذہن اور غبی ہوا کرتا ہے، خلفاء راشدین میں سے کسی ایک کی خلافت میں طعنہ زنی کرنا یا اس کی ترتیب میں طعنہ کرنا تمام صحابہ کرام پر طعنہ زنی کرنے کے مترادف ہے۔
ہم پر یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم ، اور یہ کہ وہ اسی ترتیب کے مطابق خلافت کے حقدار تھے۔ اور ہمیں یہ کہنے کا قطعاً کوئی حق نہیں کہ خلافت میں ظلم روا رکھا گیا، جس طرح کہ شیعہ کا دعویٰ ہے، جن کے نزدیک پہلے تینوں خلفاء معاذ اللہ ظالم اور غاصب تھے، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے خلافت غصب کرتے ہوئے ان پر ظلم ڈھایا۔
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد آنے والے خلفاء کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں کو لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے
|