Maktaba Wahhabi

352 - 552
فصل: اللہ تعالیٰ کی معیت اس کے علو اور استواء علی العرش کے درمیان تطبیق کا بیان شرح:… قبل ازیں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں اس کے اسماء وصفات پر ایمان لانا بھی داخل ہے، اللہ تعالیٰ کے علو، استواء علی العرش اور اس کی معیت پر ایمان لانا بھی اسی ضمن میں آتا ہے، اس فصل میں مؤلف علو اور معیت میں تطبیق کا ذکر کریں گے۔ صفت علو پر دلائل ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( وَقَدْ دَخَلَ فِیْمَا ذَکَرْنَاہُ مِنَ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ : اَلْاِیْمَانُ بِمَا اَخْبَرَ اللّٰہُ بِہِ فِیْ کِتَابِہِ ، وَتَوَاتَرَ عَنْ رَسُوْلِہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَاَجْمَعَ عَلَیْہِ سَلَفُ الْاُمَّۃِ ، مِنْ اَنَّہُ سُبْحَانَہُ فَوْقَ سَمَاوَاتِہِ عَلٰی عَرْشِہِ عَلِیٌّ عَلٰی خَلْقِہِ۔)) اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے صفت علو (تمام مخلوقات سے بلند ہونا) کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے، اور ہم قبل ازیں بتا چکے ہیں کہ یہ عقل اور فطرت سے بھی ثابت ہے اور ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت علو کی دو قسمیں ہیں : علو صفات اور علو ذات، نیز یہ کہ علو کی یہ دونوں قسمیں کتاب وسنت، اجماع، عقل اور فطرت سے ثابت ہیں ۔ کتاب اللہ اس کے دلائل سے بھری پڑی ہے، اس حوالے سے کبھی فوقیت کی صراحت کی گئی ہے، کبھی علو کی، کبھی اس کے آسمان پر ہونے کی، کبھی اس کی طرف سے اشیاء کے نزول کی اور کبھی اس کی طرف ان کے چڑھنے کی، سنت میں اس کی صراحت قول کے ساتھ بھی کی گئی ہے، فعل کے ساتھ بھی اور تقریر کے ساتھ بھی۔ اس کی تفصیل بھی پہلے گزر چکی ہے۔ رہا اجماع، تو اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے اور ان کے اجماع کے علم کا طریقہ یہ ہے کہ کتاب وسنت میں جو کچھ وارد ہوا ہے، ان سے اس کے خلاف کچھ بھی منقول نہیں ہے، سلف قرآن مجید پڑھتے تھے، اخبار نقل کرتے تھے اور اس کے مفاہیم ومعانی کا علم رکھتے تھے، جب ان سے کتاب اللہ کے ظاہر کے خلاف کوئی چیز منقول نہیں ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کا اعتقاد اس سے ہٹ کر نہیں تھا، اور یہ کہ ان کا اس پر اجماع تھا، یہ اصول ہمیشہ پیش نظر رکھیں ، یہ بہت سے مقامات پر آپ کو فائدہ دے گا۔ جبکہ عقل اس پر دو طرح سے دلالت کرتی ہے: ۱۔ علو صفت کمال ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے تمام صفات کمال ثابت ہیں ، لہٰذا اس کے لیے علو کا اثبات بھی واجب ہے۔
Flag Counter