فصل:
احادیث صفات
٭ پہلی حدیث آسمان دنیا پر نزول باری تعالیٰ کے اثبات کے بارے میں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَنْزِلُ رَبُّنَا اِلٰی سَمَائِ الدُّنْیَا کُلَّ لَیْلَۃٍ ، حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْآخِرِ ، فَیَقُوْلُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیْبَ لَہُ ، مَنْ یَسْاَلُنِیْ فَاَعْطِیَہُ ، مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرَ لَہُ۔)) [1]
’’ہمارا رب ہر رات کو جب اس کا آخری تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے، مجھ سے کون دعا کرے گا، میں اس کی دعا قبول کروں ، مجھ سے کون مانگتا ہے، میں اسے دوں ، مجھ سے کون بخشش طلب کرتا ہے میں اسے معاف کر دوں ۔‘‘
شرح:… اس حدیث کو بعض علماء احادیث متواترہ میں شمار کرتے ہیں جبکہ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اس کا شمار قبول عام حاصل کرنے والی احادیث مشہورہ میں ہوتا ہے۔
[یَنْزِلُ رَبُّنَا اِلٰی سَمَائِ الدُّنْیَا] … نزول باری تعالیٰ سے مراد نزول حقیقی ہے، اس لیے کہ جس بھی چیز میں ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہو، تو وہ چیز حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔
اس جگہ ہم پر واجب قرار پاتا ہے کہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہہ دیں کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، آسمانوں کی تعداد سات ہے اور یہ آسمان زمین کے قریب ترین ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے قریب ہونے کے لیے رات کے اس وقت آسمان دنیا پر اترتا ہے، جس طرح وہ عرفہ کی رات اپنے بندوں سے قریب ہوتا ہے اور وقوف عرفات کرنے والوں کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے۔[2]
[حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْآخِرِ ] … اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ رات کا آغاز غروب آفتاب
سے ہوتا ہے، مگر وہ ختم کب ہوتی ہے، اس بارے میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک اس کا اختتام طلوع فجر کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ بعض دوسروں کے نزدیک طلوع آفتاب کے ساتھ۔ ظاہر یہ ہے کہ شرعی رات کا اختتام طلوع فجر کے ساتھ اور فلکی رات کا طلوع آفتاب کے ساتھ ہوتا ہے۔
[فَیَقُوْلُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ ] … ’’مَنْ‘‘ یہ شوق دلانے کے لیے حرف استفہام ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo﴾ (الصف: ۱۵)
|