کرتے کیونکہ عقل ایسا نہیں کرتی۔ وہ توقف اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اس وقت دلالت عقل سلبی ہے اگر وہ کسی صفت کا نہ اثبات کرے گی اور نہ نفی تو ایسی صورت میں توقف اختیار کیا جائے گا۔
الغرض! یہ لوگ ان امور میں عقل کو حکم تسلیم کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہیں یا ممتنع۔
اللہ تعالیٰ کے لیے جن اوصاف کا عقل تقاضا کرے اسے گرداننا
اور جن کی نفی کرے اسے چھوڑنے کی تفصیل
اس اصول سے یہ چیز متفرع ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جن اوصاف کا تقاضا عقل کرتی ہو ان کے ساتھ اس کا وصف بیان کیا جائے گا اگرچہ کتاب وسنت سے ان کا اثبات نہ ہی ہوتا ہو، اور جن اوصاف کی نفی کا تقاضا عقل کرتی ہو ان کی نفی کردی جائے گی اگرچہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا اثبات ہوتا ہو۔
اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نہ آنکھ ہے، نہ چہرہ اور نہ ہاتھ، وہ نہ تو عرش پر مستوی ہے اور نہ آسمان دنیا پر آتا ہے… یہ لوگ نصوص شرعیہ میں تحریف کرتے ہیں مگر اس تحریف کو تاویل کا نام دیتے ہیں اگر یہ ان نصوص کا انکار کریں تو کفر کا ارتکاب کریں مگر وہ ایسا انکار کرتے ہیں جسے تاویل سے موسوم کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے نزدیک یہ تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے۔
حاصل کلام یہ کہ اللہ رب العزت کے اسماء و صفات کے باب میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
اگر آپ یہ کہیں کہ آپ کا یہ قول قرآن کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا﴾ (المائدۃ: ۵۰) ’’اور حکم کرنے میں اللہ سے اچھا کون ہے؟‘‘
اور دو چیزوں کے درمیان تفصیل کا فیصلہ عقل کیا کرتی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَ لِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی﴾ (النحل: ۶۰) ’’اور اللہ کے لیے اعلیٰ صفات ثابت ہیں ۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا گیا:
﴿اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَo﴾ (النحل: ۱۷)
’’کیا جو پیدا کرتا ہو وہ اس جیسا ہو سکتا ہے جس نے کچھ بھی پیدا نہ کیا ہو پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟‘‘
اس جیسی دوسری آیات جن میں اللہ تعالیٰ ان امور کا فیصلہ عقل کے حوالے کرتا ہے جنہیں وہ اپنی ذات کے لیے ثابت کرتا اور جن کی جھوٹے خداؤں سے نفی کرتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہیں اور جو اس کے لیے ممتنع ہیں ، عقل ان کا ادراک علی سبیل الاجمال کر سکتی ہے علی سبیل التفصیل نہیں ۔ مثلاً عقل اس بات کا ادراک تو کر سکتی ہے کہ رب کے لیے کامل الصفات ہونا ضروری ہے لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ وہ اس کے لیے ہر صفت کا اثبات بھی کر سکتی ہے یا اس کی نفی بھی کر سکتی ہے۔ البتہ وہ علی سبیل العموم مثبت یامنفی یہ فیصلہ سکتی ہے کہ رب تعالیٰ کے لیے کامل الصفات ہونا اور ہر نقص وعیب سے محفوظ ہونا ضروری ہے۔
|