اس کی مخلوق ہے۔ لہٰذا اسے حکم بھی دیا جا سکتا ہے اور منع بھی کیا جاسکتا ہے۔
اگر انسان اپنے عمل کے لیے مجبور ہوتا تو پھر اس کا حکم غیر ممکن چیز کے لیے ہوتا، جبکہ اللہ فرماتا ہے:
﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرہ:۲۸۶)
’’اللہ تعالیٰ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق ہی۔‘‘
اور دوسری آیت میں آتا ہے:
﴿لَا یُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (الانعام:۱۵۲) ’’وہ نہیں مکلف ٹھہراتا مگر اس کی تکلیف کے مطابق ہی۔‘‘
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندے اطاعت کرنے اور معصیت سے بچنے پر قدرت رکھتے ہیں ، اور یہ کہ وہ اس کے لیے مجبور نہیں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَہُوَ سُبْحَانَہُ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ وَالْمُحْسِنِیْنَ وَالْمُقْسِطِیْنَ۔))
’’اللہ تعالیٰ متقین، محسنین اور مقسطین سے محبت کرتا ہے۔‘‘ ارشاد ہوتا ہے:
شرح:…﴿وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo﴾ (البقرہ:۱۹۵)
’’اور اچھے کام کرو، یقینا اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
﴿فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَo﴾ (التوبہ:۷)
’’جب تک وہ قائم رہیں تمہارے لیے تو تم بھی قائم رہو ان کے لیے، یقینا اللہ تعالیٰ متقین (پرہیزگاروں ) سے محبت کرتا ہے۔‘‘
﴿وَاَقْسِطُوْا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo﴾ (الحجرات:۹)
’’اور انصاف کرو یقینا اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے، اور یہ اس امر کے باوجودہے کہ اسی نے اپنے پسندیدہ عمل کو ان کے مقدر میں کیا ہے۔ پس ان کا فعل اللہ کا محبوب فعل اور شرعی و کونی امر کے اعتبار سے اس کی مراد ہے۔ محسن واجب اور مستحب کی ادائیگی کرتا ہے، متقی واجب کی اور مقسط معاملات میں ظلم و ذیادتی سے مکمل اجتناب کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پسند اور کافروں کو ناپسند کرتا ہے
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَیَرْضٰی عَنِ الدِّیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا یُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ۔))
|