Maktaba Wahhabi

337 - 552
نیچے اترتے تو سبحان اللہ کہتے۔[1] اور یہ اس لیے کہ جب انسان بلند ہوتا ہے تو اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا ہے، لہٰذا اس موقع پر مناسب سمجھا گیا کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی بڑائی یاد دلانے کے لیے ’’اللہ اکبر‘‘ کہے، اسی طرح چونکہ نیچے اترنا نزول اور پستی کے ضمن میں آتا ہے، لہٰذا اس وقت ’’سبحان اللہ‘‘ پڑھ کر انسان اپنے آپ کو یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پستی سے منزہ ہے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آوازیں بہت زیادہ بلند ہونے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [اِرْبَعُوْا عَلَی اَنْفُسِکُمْ] … یعنی اپنی جانوں پر نرمی کرو، ان پر ترس کھاؤ۔ [اِنَّ الَّذِیْ تَدْعُوْنَہُ اَقْرَبُ اِلٰی اَحَدِکُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِہِ۔] … سواری کی گردن سوار کے بہت قریب ہوتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ انسان کے قریب ہے، مگر وہ اس کے باوجود آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ مگر قرب اور علو میں منافات نہیں ہے، اس لیے کہ ایک چیز قریب بھی ہو سکتی ہے، اور بعید بھی، اگر مخلوق کے لیے ایسا ممکن ہے تو خالق کے لیے بطریق اولیٰ ممکن ہے، رب تعالیٰ اپنے علو کے باوجود قریب ہے، وہ میری سواری کی گردن سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ فوائد مفیدہ یہ حدیث مندرجہ ذیل فوائد پر مشتمل ہے: صفات سلبیہ میں سے: رب تعالیٰ کے بہرہ یا غائب ہونے کی نفی، جو کہ اس کے سمع وبصر اور علم وقرب کے کمال کی وجہ سے ہے۔ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے وقت اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنا مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ اس طرح وہ تھک جائے گا اور اکتا جائے گا، نیز اس سے اس کا جسم بھی متاثر ہو سکتا ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی طاقت کے مطابق عمل کیا کرو، اس لیے کہ اللہ نہیں اکتائے گا، یہاں تک کہ تم اکتا جاؤ گے۔‘‘[2] لہٰذا عبادت کے لیے اپنے آپ کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہیے، اگر انسان اس کے لیے اپنے آپ میں نشاط اور آمادگی پائے تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصروف عمل رہے اور اگر واجبات کے علاوہ دیگر اعمال میں دون ہمتی محسوس کرے یا نفس کو کسی دوسری عبادت کی طرف مائل پائے تو اس کا رخ ادھر موڑ دے۔ حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز میں اونگھنے والے کو نماز ترک کر کے سو جانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی ایک اونگھنے کی حالت میں نماز پڑھے گا تو شاید وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے وقت اپنے آپ کو گالیاں دینے لگے۔‘‘[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تو مسلسل روزے رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ کہنے والا کہتا کہ آپ افطار نہیں کریں گے، پھر آپ افطار کرتے تو کہنے والا کہتا کہ اب آپ روزے نہیں رکھیں گے۔[4] آپ قیام اور نیند کے حوالے سے بھی
Flag Counter