Maktaba Wahhabi

365 - 552
نیز اس لیے بھی کہ کلام متکلم کی صفت ہوتی ہے، اور مخلوق خالق کا مفعول اور اس سے الگ، جس طرح کے مصنوع صانع سے الگ ہوتا ہے۔ [مِنْہُ بَدَاَ] … یعنی اس کے اتارنے کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی، نہ جبرئیل سے ہوئی اور نہ کسی اور سے۔ جبرئیل امین علیہ السلام اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے لے کر اترے، جب کہ ارشاد ہوا: ﴿وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ﴾ (الشعراء: ۱۹۲،۱۹۳) ’’یقینا اس قرآن کا نزول ربّ العالمین کی طرف سے ہے۔ اسے جبرئیل امین لے کر اترے۔‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا: ﴿تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ﴾ (الزمر:۱) ’’اس کتاب کی تنزیل اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے ہے۔‘‘ [وَ اِلَیْہِ یَعُوْدُ] …کلام اللہ کے بارے بحث کرتے وقت اس کے مفہوم ومعنی اور اس کی دلیل کے بارے گفتگو ہوچکی ہے۔ قول مسألۃ اللفظ کی تفصیل ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَاَنَّ اللّٰہَ تَکَلَّمَ بِہِ حَقِیْقَۃً ۔)) ’’بیشک اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ حقیقتاً کلام کیا۔‘‘ یہ بات اس اصول پر مبنی ہے کہ تمام صفات باری تعالیٰ حقیقی ہیں ، جب کلام اللہ حقیقت ہے، تو پھر اس کا مخلوق ہونا غیر ممکن اور غیر حقیقی ہے، اس لیے کہ وہ اس کی صفت ہے۔ خالق کی صفت غیر مخلوق ہے، جس طرح کہ مخلوق کی صفت بھی مخلوق ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جس نے یہ کہا کہ قرآن کے ساتھ میرا لفظ مخلوق ہے تو وہ جہمی ہے اور جس نے یہ کہا کہ وہ مخلوق ہے، تو یہ شخص بدعتی ہے۔‘‘ [1] ہم کہتے ہیں کہ لفظ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے: مصدر پر، جو کہ فاعل کا فعل ہوتا ہے، اور ملفوظ بہ پر۔ پہلے معنی کی رو سے جو کہ مصدر سے عبارت ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن اور غیر قرآن کے ساتھ ہمارے الفاظ مخلوق ہیں ۔ اس لیے کہ جب ہم یہ کہیں گے کہ لفظ سے مراد تلفظ ہے، قومنہ، زبان اور ہونٹوں کی حرکت سے خارج ہونے والی یہ آواز مخلوق ہے۔
Flag Counter