اللہ کے حکم سے وہ سب کچھ لکھ ڈالا۔ اس لیے کہ اللہ کے حکم کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
مؤلف رحمہ اللہ کا قول: ’’ماہو کائن الی یوم القیامۃ‘‘ اللہ عزوجل کے فعل کو بھی شامل ہے اور مخلوقات کے افعال کوبھی۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فَمَا اَصَابَ الْاِنْسَانَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَہُ ، وَمَا اَخْطَاْہُ لَمْ یَکُنْ لِیُصَیْبَہُ۔))
’’انسان کو جو کچھ میسر آجائے وہ اس سے رک نہیں سکتا تھا، اور جو کچھ میسر نہ آئے وہ اسے مل نہیں سکتا تھا۔‘‘
اگر آپ کا اس جملہ پر ایمان ہو تو آپ ہر طرح سے مطمئن رہیں گے۔
شرح:…[مَا اَصَابَ ] … کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جس چیز کا میسر آنا اس کے مقدر میں کر دیا گیا ہے، وہ اسے میسر آتی رہے گی اور اس سے ہر گز نہیں چوک سکے گی۔ اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جو کچھ بالفعل اسے میسر آگیا ہے اس کا اس سے چوک جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ ان میں سے ہر معنی اپنی جگہ پر درسست ہے، اور اُن میں باہم کوئی منافات نہیں ہے۔اور جو کچھ اس سے چوک گیا وہ اسے میسر نہیں آسکتا تھا، یعنی جس چیز کا چوک جانا اس کے مقدر میں کر دیا گیا ہے وہ اسے میسر نہیں آسکتا۔ اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جو کچھ بالفعل اس سے چوک گیا وہ اسے میسر نہیں آسکتا تھا۔ یہ دونوں معنی بھی صحیح ہیں اور ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں ۔
قلم کا خشک اور رجسٹروں کا بند ہونا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((جَفَّتِ الْاَقْلَامُ وَطُوِیَتِ الصُّحُفُ۔)) ’’ قلمیں خشک ہو گئیں اور رجسٹر لپیٹ دیئے گئے۔‘‘
شرح:…[الْاَقْـلَامُ ] …سے مراد تقدیر کی قلمیں ہیں جن کے ساتھ اللہ نے مخلوق کی تقدیر لکھی۔ یعنی وہ خشک ہو گئیں ۔
[الصُّحُفُ۔] …رجسٹر لپیٹ لیے گئے۔ یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ معاملہ ختم ہو چکا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سراقہ بن مالک بن جعشم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! ہمارے لیے ہمارے دین کی اس طرح وضاحت فرما دیں گویا کہ ہم ابھی پیدا ہوئے ہوں : ہمارے آج کے عمل کی کیا حیثیت ہے، کیا یہ وہ عمل ہے جس کے ساتھ قلمیں خشک ہو گئیں اور تقدیریں جاری ہو گئیں ؟ یا اس کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں ، بلکہ یہ وہ عمل ہے جس کے ساتھ قلم خشک ہو گئے اور تقدیریں جاری ہو گئیں ۔‘‘ سراقہ کہنے لگا: پھر عمل کی کیا حیثیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم عمل کرتے رہو، ہر ایک عمل آسان کر دیا جائے گا۔‘‘[1]
|