Maktaba Wahhabi

364 - 552
فصل: قرآن کے حقیقتاً کلام اللہ ہونے پر ایمان لانا ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((فَصْلٌ: وَمِنَ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ وَکُتُبِہِ : اَلْاِیْمَانُ بِاَنَّ الْقُرْآنَ کَلَامُ اللّٰہِ ، مُنَزِّلٌ ، غَیْرُ مَخْلُوْقٍ مِنْہُ بَدَاَ ، وَ اِلَیْہِ یَعُوْدُ۔)) ’’اللہ تعالیٰ اور اس کی کتابوں پر ایمان لانے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے، منزل من اللہ ہے، غیر مخلوق ہے، اسی سے اس کا آغاز ہوا، اور اسی کی طرف لوٹ جائے گا۔‘‘ شرح:… [اَ لْاِیْمَانُ بِاَنَّ الْقُرْآنَ کَلَامُ اللّٰہِ ] … اس طرح قرآنِ مجید پر ایمان لانے کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے، اور اللہ کا کلام اس کی ایک صفت ہے، نیز اس لیے بھی کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اس کا کلام ہے، اور یہ کہ وہ منزل ہے۔ لہٰذا اس کی تصدیق کرنا اللہ پر ایمان لانے میں شامل ہے۔‘‘ ’’کلام اللّٰہ‘‘اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ﴾ (التوبۃ:۶) ’’اگر مشرکوں میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔‘‘ ’’منزل‘‘ یعنی قرآن منزل من اللہ ہے۔ اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:۹) ’’یقینا ہم نے ہی ذکر (قرآن) اتارا، اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت فرمائیں گے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا گیا: ﴿اِِنَّآ اَنزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ﴾ (القدر:۱) ’’بیشک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل فرمایا۔‘‘ [غَیْرُ مَخْلُوْقٍ ] … یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ﴾ (الاعراف:۵۴) ’’خبردار رہو کہ کل مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے۔‘‘ قرآنِ مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کا امر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا﴾ (الشوری:۵۲) ’’اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنا امر وحی کیا ہے۔‘‘
Flag Counter