Maktaba Wahhabi

328 - 552
﴿اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْنٍo مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍo﴾ (التکویر: ۱۹۔ ۲۱) ’’بیشک یہ پیغام ہے فرشتے عالی مرتبت کا، جو صاحب قوت عرش والے کے پاس اونچے درجے والا ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، وہاں وہ امانت دار بھی ہے۔‘‘ اس حدیث کا سبب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ارسال کردہ کچھ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا تو ایک آدمی کہنے لگا: ہم اس کے ان لوگوں سے زیادہ حقدار ہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَ لَا تَاْمَنُوْنِیْ وَاَنَا اَمِیْنُ مَنْ فِیْ السَّمَائِ۔)) [ اَ لَا] … عرض کے لیے ہے گویا آپ یہ فرمانا چاہتے تھے: مجھے امین سمجھو بیشک میں اس کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ ہمزہ استفہام انکار کے لیے ہو اور (لا) نافیہ یہ ارشاد مبارک شاہد ہے: مَنْ فِی السَّمَائِ۔ اس سے متعلقہ بحث گزشتہ آیات میں گزر چکی ہے۔ اثباتِ علو کا بیان ٭ دسویں حدیث بھی اثبات علو کے بارے میں ہے: آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے: ((وَالْعَرْشُ فَوْقَ الْمَائِ ، وَاللّٰہُ فَوْقَ الْعَرْشِ ، وَہُوَ یَعْلَمُ مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ۔))حدیث حسن، رواہ ابوداود وغیرہ۔[1] ’’عرش پانی پر ہے اور اللہ عرش پر اور وہ تمہاری حالت کو جانتا ہے۔‘‘ یہ حدیث حسن ہے، اسے ابووداؤد وغیرہ نے روایت کیا۔ شرح:… جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں کی درمیانی مسافت کا ذکر کیا تو فرمایا: ’’والعرش فوق الماء‘‘ اس کی شہادت اس ارشاد باری تعالیٰ سے ملتی ہے۔ ﴿وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآئِ﴾ (ہود: ۷) ’’اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ [وَاللّٰہُ فَوْقَ الْعَرْشِ،وَہُوَ یَعْلَمُ مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ۔] … اللہ عرش کے اوپر ہے، مگر اس کے باوجود بھی ہمارے احوال واعمال میں سے اس پر کوئی بھی چیز مخفی نہیں ہے، بلکہ اس نے تو یہاں تک فرمایا ہے: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہُ﴾ (قٓ:۱۶)
Flag Counter