[فَاِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ لَّا تُغْلَبُوْا عَلَی صَلَاۃٍ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَصَلَاۃٍ قَبْلَ غُرُوْبِہَا؛ فَافْعَلُوْا۔] … ’’طلوع آفتاب سے قبل کی نماز سے مراد نماز فجر اور اس کے غروب ہونے سے قبل کی نماز سے مراد نماز عصر ہے۔
نماز عصر، نماز فجر سے افضل ہے، اس لیے کہ وہ صلاۃ وسطیٰ (درمیانی نماز) ہے، جس کی نگہداشت کا اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر حکم دیا ہے، مگر دوسرے اعتبار سے نماز فجر نماز عصر سے افضل ہے، اس لیے کہ وہ صلاۃ مشہودہ ہے، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًاo﴾ (الاسراء: ۷۸)
’’اور قرآن (پڑھنا نماز) فجر میں ، یقینا نماز فجر میں قرآن پڑھنا فرشتوں کی حاضری کا موجب ہے۔‘‘
ایک صحیح حدیث میں آتا ہے: ’’دو ٹھنڈی نمازیں پڑھنے والا جنت میں داخل ہوگا۔‘‘[1] ان دو نمازوں سے مراد، نماز فجر اور نمازعصر ہیں ۔
اس حدیث سے مستفاد صفات
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا اثبات ہوتا ہے۔
رؤیت باری تعالیٰ پر دلالت کرنے والی آیات کے ضمن میں اس صفت کی شرح گزر چکی ہے۔ جو کہ تعداد میں چار ہیں ، جب کہ اس بارے میں مرفوع احادیث تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں ، جن کا ثبوت بھی قطعی ہے اور دلالت بھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علمائے کرام رؤیت باری تعالیٰ کے منکر کو کافر ومرتد قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ہر بندہ مومن پر اس کا اقرار کرنا واجب ہے، وہ اس کے منکر کو کافر قرار دینے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس کے دلائل قطعی الثبوت بھی ہیں اور قطعی الدلالت بھی، کسی شخص کے لیے بھی یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ((اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ۔))قطعی الدلالت نہیں ہے، اس لیے کہ اس ترکیب سے بڑھ کر کوئی بھی ترکیب قطعی الدلالت نہیں ہو سکتی۔
قبل ازیں ہم بتلا آئے ہیں کہ اہل تاویل ان احادیث کی تاویل کرتے ہوئے رؤیت کی تفسیر روًیت علم کے ساتھ کرتے ہیں ، وہیں ان کے اس قول کا بطلان بھی کیا جا چکا ہے۔
اِلی امثال ہٰذہِ الحدیث یعنی ان احادیث کی امثال ملاحظہ فرمائیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب تعالیٰ کے بارے میں لوگوں کو بتایا ہے، ان میں سے جو احادیث ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے ان احادیث جیسی ہوں گی تو ان کا حکم بھی ان کے حکم جیسا ہوگا۔
الفرقۃ الناجیۃ۔ نجات پانے والا گروہ، جو دنیا میں بدعات وخرافات سے نجات پائے گا اور آخرت میں آتش جہنم سے۔
اہل السنۃ والجماعۃ۔ یعنی جن کا سنت پر عمل ہے اور وہ اس پر اکٹھے ہیں ۔
یومنون بذلک۔ یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے امور پر ایمان رکھتے ہیں ۔
|