اللہ تعالیٰ کے قرب کی اقسام
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بعض علماء نے معیت کی طرح اللہ تعالیٰ کے قرب کو بھی دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ:
جس قرب کا مقتضیٰ احاطہ ہے، وہ قرب عام ہے۔
اور جس کا مقتضیٰ اجابت واثابت ہے، وہ قرب خاص ہے۔
جب کہ بعض علماء کے نزدیک قرب صرف خاص ہوتا ہے، جو کہ پکارنے والے کی پکار کو قبول کرنے اور عبادت گزار کو اس کی عبادت کا ثواب دینے کا متقاضی ہوتا ہے، اور یہ غیر منقسم ہے: یہ لوگ اس قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہیں :
﴿وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ (البقرہ:۱۸۶)
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے بھی: ’’بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب کے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے۔‘‘[1] ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی کافر و فاجر شخص کے قریب ہونا ممکن نہیں ہے۔
یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ کا پسندیدہ مذہب ہے۔
مگر اس قول کے خلاف اس ارشاد ربانی کو پیش کیا گیا ہے:
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہُ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق:۱۶)
’’یقینا ہم نے انسان کو پیدا فرمایا، اور ہم اس کے دل میں گزرنے والے خیالات کو جانتے ہیں ، اور ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔‘‘
اس جگہ انسان سے مراد ہر انسان ہے۔ اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا:
﴿لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌo وَقَالَ قَرِیْنُہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌo اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍ o﴾ (ق:۲۴۔۲۲)
’’یقینا تو اس دن سے غفلت میں پڑا تھا، پس ہم نے تجھ سے تیری آنکھ کا پردہ اٹھا دیا، پس تیری نظر آج بڑی تیز ہے، اور اس کے ساتھ والا (فرشتہ) کہے گا یہ ہے وہ اعمال نامہ جو میرے پاس تیار ہے۔ (پھر دونوں فرشتوں کو حکم ہوگا) ہر نا شکرے سرکش کو جہنم میں ڈال دو۔‘‘
نیز اس ارشاد ربانی کو بھی:
﴿فَلَوْلَا اِِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَo وَاَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنظُرُوْنَo وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰـکِنْ لَا تُبْصِرُوْنَo﴾ (الواقعہ:۸۵۔۸۳)
|