شرح:…جب جنتی لوگ پل صراط عبور کر لیں گے تو انہیں ایک چھوٹی پل پر کھڑا کر دیا جائے گا تاکہ وہ ایک دوسرے سے قصاص لے لیں ، اور یہ میدان محشر میں لئے گئے قصاص کے علاوہ ہوگا، اب دلوں کو پاک کیاجائے گا، اور ان میں پائے جانے والے بغض و نفرت اور کینہ کا خاتمہ کر دیا جائے گا، اور پھر جب ایسا ہو جائے گا تو انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی۔
مگر جب وہ جنت کے قریب پہنچیں گے تو اس کے دروازوں کو بند پائیں گے، اور انہیں اس وقت کھولا جائے گا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جنت میں داخل کیے جانے کی شفاعت کریں گے۔ آپ کی شفاعت کو شرف قبولیت سے نوازا جائے گا، اور ہر انسان اپنے اس عمل کے دروازے سے جنت میں داخل ہوجائے گا جس کے لیے وہ زیادہ کو شاں رہتا تھا، کچھ خوش قسمت ایسے بھی ہوں گے جنہیں جنت کے تمام دروازوں سے آواز دی جائے گی۔
اس شفاعت کی طرف قرآن مجید میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے بارے میں فرمایا:
﴿حَتّٰی اِِذَا جَائُ وْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا﴾ (الزمر:۷۳)
’’یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔‘‘
یہ اسلوب بیان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے جنت کے قریب پہنچنے اور اس کے دروازے کھلنے کے درمیان کوئی واقعہ ہوا تھا۔
اس واقعہ کو صحیح مسلم[1] کی اس حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو اکٹھا فرمائے گا، مومن کھڑے ہو جائیں گے یہاں تک کہ جنت کو ان کے قریب کر دیا جائے گا، وہ آدم کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: ابا جان! ہمارے لیے جنت کے دروازے کھلوانے کی سفارش کریں …‘‘ الحدیث۔ اس حدیث میں آتا ہے:’’ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے، آپ کھڑے ہوں گے۔ پھر آپ کو اجازت دے دی جائے گی ... الحدیث۔‘‘
مخصوص شفاعت کا حق
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وہاتان الشفاعتان خاصتان لہ۔))
’’وہ دونوں شفاعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں ۔‘‘
شرح:…یعنی اہل موقف کے بارے میں یہ سفارش کہ ان کا فیصلہ کر دیا جائے اور جنت میں جانے والوں کی یہ شفاعت کہ انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے۔
[خاصتان لہ]… یعنی یہ دونوں شفاعتیں اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں ، اسی لیے حضرت آدم اور دیگر
|