دریں حالات وہ جملہ ادیان جن کے پیروکار اپنے آپ کو حق پر فائز تصور کرتے ہیں ، دین اسلام ان پر غالب آکر رہے گا، اور جو کسی بھی دین کو تسلیم نہیں کرتے ان پر بطریق اولیٰ غالب آئے گا، اور اگر یہ ضمیر رسول کی طرف لوٹتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غلبہ عطا فرمائے گا، اس لیے کہ ان کے ساتھ دین حق ہے۔
الغرض دونوں صورتوں میں اس دین حق کے ساتھ دلی وابستگی رکھنے والے ہی ظاہر وغالب ہوں گے، علاوہ ازیں کہیں
سے بھی عزت وغلبہ کے متلاشی ذلت وپستی کے متلاشی ہوں گے، غلبہ اور عزت وکرامت صرف دین حق کے ساتھ وابستگی میں ہے۔
برادران اسلام! یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے دین حق کو تھامے رکھنے کی دعوت دیتا ہوں ، عبادت واخلاق میں بھی، سیرت وسلوک میں بھی اور اس کی دعوت میں بھی۔ یہاں تک کہ ملت قائم ہو جائے اور امت صراط مستقیم پر گامزن ہو جائے۔
آیت وَکَفٰی بِاللّٰہِ اور لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْن میں مناسبت
[وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا ] … اہل لغت کہتے ہیں ، اس جگہ ’’باء‘‘ زائدہ ہے، جس کا مقصد لفظی تحسین وتجمیل اور کفایت کے معنی میں مبالغہ پیدا کرنا ہے، اصل عبارت اس طرح ہے: ’’وکفی اللّٰہ‘‘ اور ’’شہیدا‘‘ تمییز محول عن الفاعل ہے، اس لیے کہ اس کا اصل’’وکفت شہادۃ اللّٰہ‘‘ ہے۔
مؤلف رحمہ اللہ نے قرآنی آیت ذکر کی ہے اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ ﴿کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا ﴾ کی ﴿لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ﴾ کے ساتھ کیا مناسبت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے دونوں میں مناسبت بالکل واضح ہے اس لیے کہ نبی کریم علیہ السلام لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘[1] اور آپ نے زبان حال سے فرمایا:’’جس نے میری اطاعت کی میں اس سے صلح رکھوں گا اور جس نے میری نافرمانی کی میں اس سے جنگ کروں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دین کے ساتھ محاربہ کیا اور لوگوں کے خونوں ، مالوں ، عورتوں اور اولادوں کو مباح قرار دیا، اس دوران رب کائنات کی طرف سے آپ کی مدد کی گئی۔ آپ کو تقویت سے نوازا گیا، آپ ہمیشہ غالب رہے اور کبھی مغلوب نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سب کچھ آپ کے لیے تمکین فی الارض ہے اور یہ اس کی طرف سے فعلاً اس امر کی گواہی ہے کہ آپ علیہ السلام صادق ہیں اور یہ کہ آپ کا دین حق ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پر افتراء پردازی کرنے والے کا انجام ذلت ورسوائی، زوال پذیر ہونا اور پھر معدوم ہو جانا ہے، آپ چشم تصور سے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور دوسرے مدعیان نبوت کی طرف دیکھیں کہ ان کا انجام کیا ہوا؟ ان کے نام تک بھی لوگوں کے ذہنوں سے بھی مٹ گئے، اور وہ ہلاکت سے دورچار کر دیئے گئے۔ ان کے دعوے باطل قرار پائے اور وہ صواب وسداد سے محروم رہے۔ اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت بحمداللہ تعالیٰ آج تک باقی ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک باقی بھی رہے گی اور ثابت وراسخ بھی۔
|