اسے جہنم میں بھی ہمیشہ رکھتے ہیں ۔ اگرچہ وہ اس پر کفر کا اطلاق نہیں کرتے۔
[المطلق] …اس سے مؤلف رحمہ اللہ کی اس جگہ مراد یہ ہے کہ جب مطلق ایمان کی بات ہوگی تو وصف اسم کی طرف لوٹے گا نہ کہ ایمان کی طرف، جس طرح کہ عنقریب مؤلف کے کلام سے ظاہر ہوگا۔ لہٰذا اس سے مراد مطلق ایمان ہوگا جو کہ فسق اور عدل کو شامل ہے۔
[تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ] …اس جگہ (مومنۃ) میں فاسق بھی داخل ہے۔
اگر کسی نے فاسق غلام خرید کر اسے کفارہ میں آزاد کردیا، تو یہ اسے کفایت کرجائے گا، حالانکہ حکم یہ دیا گیا ہے:[فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ]اور یہ اس لیے کہ کلمہ (مومنۃ) فاسق اور غیر فاسق دونوں کو شامل ہے۔
فاسق، ایمان مطلق میں داخل نہیں
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وقد لا یدخل فی اسم الایمان المطلق۔))’’وہ کبھی ایمان مطلق کے نام میں داخل نہیں ہوتا۔‘‘
شرح:…یعنی فاسق کبھی اسم ایمان کے مطلق میں داخل نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ میں ہے:
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا﴾ (الانفال:۲)
’’صرف اور صرف مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں ۔‘‘
[اِنَّمَا] … اداۃ حصر ہے۔ یعنی مومن تو صرف یہ لوگ ہیں ، اور مومنین سے مراد کامل ایمان والے ہیں ، اس جگہ مومنین میں فاسق داخل نہیں ہیں ، اس لیے کہ اگر اس پر آیات اللہ پڑھی جائیں تو وہ اس کے ایمان میں اضافہ نہیں کرتیں ، اور اگر اس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کا دل ڈرتا نہیں ۔
مؤلف نے یہ بات واضح فرما دی ہے کہ کبھی ایمان سے مراد مطلق ایمان ہوتا ہے اور کبھی ایمان مطلق۔
جب ہم کسی ایسے آدمی کو دیکھیں کہ اللہ کا ذکر سن کر اس کا دل نہیں ڈرتا، اور جب اس پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کے ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا، تو اسے مومن کہنا بھی صحیح ہوگا اور غیر مومن بھی۔ مومن اس لیے کہ اس کے پاس اصل ایمان موجود ہے اور غیر مومن اس لیے کہ اس کے پاس کامل ایمان موجود نہیں ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|