’’اور ہم نے آپ پر کتاب اتاری جس میں ہر چیز کی وضاحت ہے۔‘‘
جب قرآن تبیان ہے تو پھر وہ ایک مستقل دلیل ہے اور دلیل معین کے انتفاء سے مدلول کا انتفاء لازم نہیں آتا، اس لیے کہ مدلول کے متعدد دلائل ہو سکتے ہیں وہ حسی بھی ہو سکتے ہیں اور معنوی بھی۔
حسي دلیلکی مثال یہ ہے کہ ایک شہر ہے جس تک کئی راستے پہنچاتے ہیں ، اگر ان میں سے کوئی ایک راستہ بند ہو جائے تو ہم دوسرا راستہ اختیار کر لیں گے۔
معنوي دلائلکی مثال یہ ہے کہ کتنے ہی شرعی احکام ایسے ہیں جن کے متعدد دلائل موجود ہوتے ہیں ، مثلاً نماز کے لیے وجوب طہارت متعدد دلائل سے ثابت ہے۔
اگر تم یہ کہتے ہو کہ خالق ومخلوق کے درمیان اثبات محبت پر عقل دلالت نہیں کرتی تو سمع اس پر بڑے جلی اور واضح انداز میں دلالت کرتی ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم یہ دعویٰ ہی تسلیم نہیں کرتے کہ عقل اس محبت پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ جیسا کہ بتایا جا چکا عقل خالق ومخلوق کے درمیان اثبات محبت پر دلالت کرتی ہے۔
رہا تمہارا یہ قول کہ محبت صرف دو ہم جنس افراد کے درمیان ہی ہو سکتی ہے، تو تمہارے اس دعویٰ کو بھی قبول نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ اصل عدم ثبوت ہے، محبت غیر متجانسین کے درمیان بھی ہو سکتی ہے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو مختلف چیزوں سے محبت کرتے ہیں اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو مختلف اشیاء کے شائقین ہوتے ہیں ۔ جانور لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں ، ہم بحمداللہ تعالیٰ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان محبت کا اثبات کر چکے۔
آیات صفت رحمت
شرح:… مندرجہ ذیل آیات اللہ تعالیٰ کے لیے صفت رحمت کے اثبات پر مشتمل ہیں :
پہلی آیت: ﴿بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo﴾ (النمل: ۳۰)
’’شروع اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے۔‘‘
مؤلف رحمہ اللہ اس آیت کو اس حکم کے اثبات کے لیے لائے ہیں ، بسملہ کی شرح پہلے گزر چکی ہے اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
رحمت عامہ اور خاصہ میں فرق
یہ آیت اللہ تعالیٰ کے تین اسماء: اللہ، الرحمن، الرحیم اور دو صفات: الوہیت ورحمت پر مشتمل ہے۔
دوسری آیت: ﴿رَبَّنَآ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَحْمَۃً وَّعِلْمًا﴾ (الغافر: ۷) ’’ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم کے ساتھ گھیر رکھا ہے۔‘‘
|