Maktaba Wahhabi

458 - 552
انسان اپنے لیے مجبور محض ہے۔ اس لیے کہ وہ اس پر لکھا جا چکا ہے۔ [یُخْرِجُوْنَ عَنْ اَفْعَالِ اللّٰہِ وَاَحْکَامِہِ حِکَمَہَا وَمَصَالِحَہَا] …’’یخرجون‘‘ مؤلف رحمہ اللہ کے قول ’’یغلو‘‘ پر معطوف ہے۔ جبریہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے افعال و احکام سے حکم و مصالح کو نکالنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی حکمت و مصلحت کا اثبات نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ہر فعل اور حکم مجرد مشیت کے تابع ہوتا ہے، اسی لیے وہ اطاعت گزار کو اجر و ثواب سے نوازتا ہے اگر چہ وہ اس فعل کے لیے مجبور ہوتا ہے، اور نا فرمان کو سزا دیتا ہے اگرچہ وہ بھی اس کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ جبر یہ کے اس مسئلہ سے اکثر نافرمان حجت لیا کرتے ہیں ؛ اگر آپ ان کی کسی برائی پر انہیں ٹوکیں تو وہ جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ اسے اللہ نے میرے مقدر میں کیا ہے، تم اللہ پر اعتراض کرتے ہو؟ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی معصیت پر تقدیر سے حجت لیتا ہے۔ نیزوہ اس حدیث سے بھی احتجاج کرتا ہے کہ: ’’آدم و موسیٰ کا جھگڑا ہو گیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا: آپ ہمارے باپ ہیں ، آپ نے ہمیں نامراد کر دیا اور جنت سے نکلوا دیا۔ اس پر حضرت آدم کہنے لگے: آپ موسیٰ ہیں ، اللہ نے آپ کو اپنے کلام کے ساتھ منتخب فرمایا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے کتاب لکھی۔ کیا آپ مجھے اس کام کے لیے ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا؟ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ’’اس طرح آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ فرمائی،[1] مسند احمد میں ہے: ’’فَحَجہ آدمُ‘‘ ’’آدم ان پر غالب آگئے۔‘‘[2] ان الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر دلیل سے غالب آئے۔ معاصی کا مرتکب کہتا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کیا تو انہوں نے تقدیر سے حجت لی۔ جس پر حضرت موسیٰ خاموش ہو گئے تو تم مجھ پر اعتراض کیوں کرتے ہو؟ حدیث آدم کا جواب اس حدیث کا قدریہ کی رائے کے مطابق تو جواب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اخبار احاد موجب یقین نہیں ہوتیں ۔وہ کہتے ہیں کہ جب اخبار احاد عقل سے متعارض ہوں تو انہیں رد کر دینا واجب ہوگا۔ اس بناء پر ان کا کہنا ہے کہ حدیث آدم صحیح نہیں ہے، ہم نہ اسے قبول کرتے ہیں اور نہ تسلیم۔ جبکہ جبر یہ کا کہنا ہے کہ یہ اصل دلیل ہے۔ اور اس کی دلالت برحق ہے۔ بندے کی تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا گیا اس پر اسے ملامت نہیں کی جا سکتی۔ رہے اہل السنہ و الجماعہ، تو وہ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام نے گناہ کا ارتکاب کیا جو ان کے جنت سے نکلنے کا سبب بن گیا، مگر
Flag Counter