Maktaba Wahhabi

287 - 552
جہاں تک کلمات شرعیہ کا تعلق ہے تو ان میں کفار ومنافقین کی طرف سے تبدیلی کی جا سکتی ہے، معنوی طور پر بھی، لفظی طور پر بھی اور دونوں طرح سے بھی۔ ارشاد باری: ﴿لِکَلِمٰتِہٖ﴾ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ پانچویں آیت: ﴿اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اَکْثَرَ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَo﴾ (النمل: ۷۶) ’’یقینا یہ قرآن بیان کرتا ہے بنی اسرائیل پر اکثر حصہ اس کا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔‘‘ شرح:…اس آیت میں شاہد: ﴿یَقُصُّ﴾ ہے، اس لیے کہ بیان صرف قول کی صورت میں ہو سکتا ہے، جب قرآن بیان کرتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اللہ عزوجل کا کلام ہے، اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے یہ قصص بیان فرمائے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے:﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ﴾ (یوسف:۳)’’ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اس کے ذریعہ سے جو ہم نے یہ قرآن آپ کے پاس وحی سے بھیجا ہے۔‘‘اگر یہی بات ہے تو پھر قرآن مجید کلام اللہ ہے۔ اس بات کا اثبات کہ قرآن منزل من اللہ ہے ٭ اب مؤلف رحمہ اللہ وہ قرآنی آیات ذکر کرنے چلے ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن منزل من اللہ ہے: پہلی آیت: ﴿وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ﴾ (الانعام: ۱۵۵) ’’اور یہ ایسی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے یہ خیر و برکت والی ہے۔‘‘ شرح:… [ہٰذَا]… مشار الیہ قرآن ہے۔ [کِتٰبٌ]… بمعنی مکتوب ہے، اس لیے کہ یہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے، بزرگ فرشتوں کے ہاتھوں میں موجود صحیفوں میں لکھی ہوئی ہے، اور ہمارے پاس موجود صحیفوں میں لکھی ہوئی ہے۔ [مُبٰرَکٌ]… یعنی خیر و برکت والی ہے۔ قرآن بابرکت کتاب ہے، اس لیے کہ وہ سینوں کی بیماریوں کے لیے باعث شفاء ہے، جب کوئی انسان اسے تدبر و تفکر کے ساتھ پڑھتا ہے، تو وہ دل کو بیماریوں سے شفا دیتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآئٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الاسراء: ۸۲) ’’اور ہم اتارتے ہیں قرآن جو کہ مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔‘‘ قرآن اپنے اتباع کیے جانے میں بابرکت ہے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے ظاہری اور باطنی اعمال کی اصلاح ہوتی ہے۔ قرآن اپنے آثار عظیمہ کے اعتبار سے بھی بابرکت ہے۔ مسلمانوں نے قرآن کی بنیاد پر بلاد کفر کے خلاف جہاد کیا، اللہ
Flag Counter