Maktaba Wahhabi

542 - 552
وہ اس امر کو واضح کرکے قرآن کی خیر خواہی کرتا ہے کہ وہ کلام اللہ ہے، منزل من اللہ ہے، غیر مخلوق ہے، اور یہ کہ اس کی خبر کی تصدیق کرنا، اور اس کے احکام کی تعمیل کرنا واجب ہے۔ اور وہ ان باتوں کا خود بھی اعتقاد رکھتا ہے۔ ائمۃ المسلمین: ہر وہ شخص جس کے سپر د اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا کوئی معاملہ کر دے وہ اس بارے میں ان کا امام ہے، ملک کا سربراہ امام عام ہوتا ہے۔ جبکہ گورنر، وزیر، مدیر، رئیس اور امام مسجد و غیر ہم امام خاص کہلاتے ہیں ۔ عام مسلمان وہ ہیں جو ان ائمہ کی اتباع کرتے ہیں ۔ علمائے کرام کا شمار مسلمانوں کے باعظمت ائمہ میں ہوتا ہے، ان کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کے محاسن کو پھیلایا جائے ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر کیا جائے، اور ان کی صواب تک رسائی کی حرص کی جائے۔ وہ اس طرح کہ اگر ان سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو ان کی راہنمائی کی جائے، ان کی غلطی کی اس طرح نشاندہی کی جائے جس سے ان کی عزت و کرامت مخدوش نہ ہونے پائے، اور ان کی قدر و منزلت میں کمی نہ آنے پائے۔ مذکورہ بالا امور کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں اسلام کا نقصان ہوگا، عوام الناس جب یہ دیکھتے ہیں کہ علماء ایک دوسرے کو گمراہ بتا رہے ہیں تو وہ ان کی نظروں سے گر جاتے ہیں ، اور وہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تردید میں لگے ہوئے ہیں ، ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے غلط کون ہے اور صحیح کون؟ اور یہ کہ حق کس کے ساتھ ہے؟ لہٰذا وہ کسی کی بات پر بھی عمل نہیں کرتے۔ لیکن جب علماء ایک دوسرے کا احترام کریں ، اور اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو وہ راز داری کے ساتھ اس کی راہنمائی کریں ، اور لوگوں کے سامنے صحیح قول پیش کریں ، تو یہ مسلمان علماء کی سب سے بڑی خیر خواہی ہوگی۔[1] اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ امت کی خیر خواہی کا میزان کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میزان کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرماکر اشارہ کر دیا ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ [2] اپنے ساتھی کے ساتھ کسی قسم کا بھی کوئی معاملہ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیا کریں کہ اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ یہ معاملہ کرے تو آپ اسے پسند کریں گے؟ اگر نہیں تو پھر آپ بھی کسی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کریں ۔ مومن ، مو من کے لیے دیوار کی مانند ہے ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((ویعتقدون معنی قولہ: ’’المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا‘‘ وشبک بین اصابعہ)) ’’اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مفہوم پر اعتقاد رکھتے ہیں : مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔ آپ نے اپنی انگلیاں ایک دوسری میں داخل کیں ۔‘‘ شرح:…نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کو اپنے مومن بھائی کے لیے دیوار کے ساتھ تشبیہ دی جس کا ایک حصہ دوسرے کو
Flag Counter