اہل سنت کا فرض نماز کو باجماعت ادا کرنا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویحافظون علی الجماعات۔)) ’’اور وہ جماعتوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔‘‘
شرح:…یعنی اہل سنت و الجماعت پانچوں نمازوں میں اقامت جماعت پر محافظت کرتے ہیں ، بایں طور کہ اذان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہوتے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر باجماعت نماز اد کرتے ہیں ۔ جو شخص پانچ نمازوں پر محافظت نہیں کرتا تو وہ جتنی جماعتوں سے محروم رہے گا اہل سنت کی اتنی ہی صفات سے محروم ہوگا۔
جماعات میں کسی رائے پر اجتماع اور اس میں نزاع پیدا نہ کرنا بھی اس میں داخل ہو سکتا ہے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات پیدا نہیں کرنا، خوشخبری دینا اور متنفر نہیں کر نا، ایک دوسرے کی بات ماننا اور باہم اختلاف نہیں کرنا۔‘‘[1]
اُمت کی خیر خواہی کرنا دینی فریضہ ہے
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویدینون بالنصیحۃ للأمۃ۔)) ’’وہ امت کی خیرخواہی کرنے کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔‘‘
شرح:… [یدینون] … یعنی وہ امت کی خیر خواہی کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کے دین ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔
امت کی خیر خواہی کا باعث کبھی اللہ کی بندگی کے علاوہ کوئی اور امر بھی ہوتا ہے، انسان کو کبھی اس پر غیرت آمادہ کرتی ہے، کبھی سزا کا خوف، اور کبھی مسلمانوں کو نفع پہنچانے کی خاطر اخلاق فاضلہ سے متصف ہونا اس کا سبب بنتا ہے۔
مگر اہل سنت اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری اور اس کے لیے تدین کی خاطر امت کی خیر خواہی کرتے ہیں ، اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے، دین خیر خواہی کا نام ہے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی خیر خواہی، اللہ کے رسول کی خیر خواہی، مسلمانوں کے ائمہ کی خیر خواہی، اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی۔‘‘[2]
اللہ تعالیٰ کی خیر خواہی سے مراد اس تک رسائی کے لیے صدق طلب ہے۔
رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی خیر خواہی سے مراد ان کی سچی اتباع ہے جو کہ اس دین کے دفاع کو مستلزم ہے جسے لے کر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اسی لیے فرمایا گیا: ’’اور اس کی کتاب کی خیر خواہی۔‘‘
|