’’ہرگز نہیں ، وہ اس دن اپنے رب سے پردے میں ہوں گے۔‘‘
شرح:… اور اس کی زیارت سے محروم رہیں گے۔
اس آیت میں وجہ دلالت یہ ہے کہ جب اہل غضب اللہ تعالیٰ سے پردے میں ہوں گے تو اہل رضیٰ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے، یہ استدلال بڑا قوی ہے، اس لیے کہ اگر سب ہی پردے میں ہوتے تو ان کا خاص طور پر ذکر نہ ہوتا۔
اسی طرح کل آیات پانچ ہوگئیں ۔ جبکہ ہمارے لیے ان آیات کے ساتھ اس آیت کو ملانا بھی ممکن ہے۔
﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ﴾ (الانعام: ۱۰۳)
’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں جب کہ وہ آنکھوں کا ادراک رکھتا ہے۔‘‘
جس کا ذکر رؤیت باری تعالیٰ کے منکرین کی تردید کے ضمن میں آئے گا۔ ان شاء اللہ
رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں یہ ہے اہل سنت کا عقیدہ اور اس کے لیے ان کے دلائل، یہ ایک واضح حقیقت ہے جس کا انکار کوئی جاہل ہی کر سکتا ہے۔
اہل تعطیل، جہمیہ، معتزلہ اور اشاعرہ کے سمعی اور عقلی دلائل
جبکہ اس حوالے سے اہل تعطیل میں سے جہمیہ، معتزلہ اور اشاعرہ وغیرہم ان سے اختلاف رکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ بعض سمعی اور عقلی دلائل سے استدلال کرتے ہیں ۔
سمعی دلائل: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَـٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ﴾ (الاعراف: ۱۴۳)
’’اور جب آیا موسیٰ ہمارے وقت پر اور کلام کیا اس سے اس کے رب نے تو وہ کہنے لگے، میرے رب! مجھے دکھا کہ میں تیری طرف دیکھوں ، اللہ نے فرمایا: تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر تو وہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو پھر تم بھی مجھے دیکھ لو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔‘‘
وجہ دلالت یہ ہے کہ حرف (لَنْ) نفی مؤبد کے لیے ہے، نفی خبر ہے اور اللہ تعالیٰ کی خبر مبنی برصدق ہوا کرتی ہے اور وہ منسوخ بھی نہیں ہو سکتی۔اس دعویٰ کی تردید کئی طرح سے کی جا سکتی ہے۔
اولاً: یہ دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے کہ (لَنْ) نفی موبد کے لیے ہے۔
ابن مالک ’’کافیہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
وَمَنْ رَأَی النَّفْيَ بِلَنْ مُؤَبَّدًا فَقَوْلَہُ أَرْدُوْ وَسِوَاہُ فَاعْضُدْ!
|