Maktaba Wahhabi

481 - 552
کے بارے میں تالیف کردہ دوسری کتابوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا، جن کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ فلاں صحابی فتح سے قبل مسلمان ہوا، اور فلاں اس کے بعد، ’’وہو صلح الحدیبیۃ‘‘ یہ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول ہے، اور یہی صحیح ہے، اس کی دلیل خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آنے والد واقعہ، نیز براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے: تم لوگ فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو، یقینا فتح مکہ بھی ایک فتح تھی مگر ہم تو حدیبیہ میں ہونے والی بیعت رضوان کو فتح تسلیم کرتے ہیں ۔ [1] دوسرے قول کی رو سے اس فتح سے مراد فتح مکہ ہے۔ زیادہ تر مفسرین کا یہی قول ہے۔[2] مہاجرین کی انصار پر فضیلت ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((ویقدمون المہاجرین علی الانصار۔)) ’’اور وہ مہاجرین کو انصار پر مقدم رکھتے ہیں ۔‘‘ شرح:…مہاجرین: وہ لوگ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فتح مکہ سے پہلے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، جبکہ انصار وہ لوگ ہیں جن کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہجرت فرمائی۔ اہل سنت مہاجرین کو انصار پر مقدم رکھتے ہیں ، اس لیے کہ انہوں نے ہجرت بھی کی اور نصرت بھی، جبکہ انصار صرف نصرت اسلام سے مشرف ہوئے۔ مہاجرین نے اپنے اہل وعیال کو بھی چھوڑا اور مال و اسباب کو بھی، اور اپنے وطن کو چھوڑ کر اپنی زمین میں جابسے جس میں وہ غریب الدیارتھے۔ انہوں نے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کے لیے اور ان کی نصرت و معاونت کے لیے کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب انصار کے ملک میں مہاجر بن کر تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کا فریضہ سرانجام دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر اس چیز کے ساتھ دفاع کیا جس کے ساتھ وہ اپنے بچوں اور عورتوں کا تحفظ کیا کرتے تھے۔ مہاجرین کو مقدم کرنے کی دلیل یہ قرآنی آیت ہے: ﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ﴾ (التوبہ:۱۰۰) ’’اور پہلے پہل ایمان لانے میں سبقت لے جانے والے مہاجرین اور انصار میں سے اور جنہوں نے احسان کے ساتھ ان کی اتباع کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔‘‘ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو انصار پر مقدم رکھا ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
Flag Counter