Maktaba Wahhabi

566 - 552
گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار ومشرکین کی طرف سے بڑی بڑی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر آخر کار آپ موذی دشمن پر نصرت سے نوازے گئے، ایک وہ وقت تھا کہ آپ ڈرتے ہوئے مکہ مکرمہ سے نکل کھڑے ہوئے اور پھر وہ دن بھی آیا کہ آپ فاتح بن کر اس میں داخل ہوئے۔ حق پر قائم رہنے والی جماعت ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((الذین قال فیہم النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق منصورۃ لا یضرہم من خالفہم ولا من خذلہم حتی تقوم الساعۃ۔))[1] ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں سے ایک جماعت کی ہمیشہ مدد کی جاتی رہے گی، ان کی مخالفت کرنے والے اور انہیں بے یارو مددگار چھوڑنے والے ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔‘‘ شرح:… [لاتزال]…یہ فعل افعال استمرار میں سے ہے جو کہ چار ہیں : فتئًی إنفک، برحاور زال، جب ان پر نفی یا شبہ نفی داخل ہو۔ [لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق] … یعنی میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی۔ یہ جماعت نہ تو عدد کے ساتھ محصور ہے اور نہ ہی مکان وزمان کے ساتھ۔ ممکن ہے کہ کسی جگہ اس کی کسی ایک دینی معاملہ میں مدد کی جائے اور دوسری جگہ کسی دوسری جماعت کی۔ اور اس طرح دونوں جماعتوں کی نصرت کی وجہ سے دین باقی رہے۔ [لا یضرہم]… انہیں ضرر نہیں پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: لا یؤذیہم، انہیں اذیت نہیں دے گا، اس لیے کہ اسے اذیت لاحق ہو سکتی ہے، مگر ضرر لاحق نہیں ہو سکتا، ضرر اور اذیت میں نمایاں فرق ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا: ’’میرے بندو! تم مجھے ضرر نہیں پہنچا سکتے ہو۔‘‘[2] اور قرآن مجید میں ارشاد ہوا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ﴾ (الاحزاب: ۵۷) یقینا جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں ، ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں لعنت فرما دی ہے۔‘‘ ایک دوسری قدسی حدیث میں وارد ہوا ہے: ’’آدم کا بیٹا مجھے اذیت دیتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں ۔‘‘[3] ان نصوص میں حق تعالیٰ کے لیے اذیت کا اثبات کیا گیا ہے، جبکہ ضرر کی نفی کی گئی ہے۔
Flag Counter