’’اوّل تخلیق قلم کی ہوئی‘‘ پر ایمان لانا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فأول ماخلق اللہ القلم ؛ قال لہ: اکتب !قال: ما أکتب ؟ قال : اکتب ماہو کائن الی یوم القیامۃ۔)) [1]
’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ اس سے فرمایا: لکھ! اس نے کہا: کیا لکھوں ؟ اللہ نے فرمایا: وہ سب کچھ لکھ دے جو قیامت تک ہونے والا ہے۔‘‘
شرح:…[فاول ما خلق اللہ القلم ؛ قال لہ: اکتب]… ’’اللہ تعالیٰ نے قلم کو لکھنے کا حکم دیا‘‘ حالانکہ قلم جامد ہے۔
سوال: پیدا ہوتا ہے کہ جمادات سے کس طرح خطاب کیا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جامد اشیاء اللہ تعالیٰ کی نسبت سے عاقل ہیں ، جن سے مخاطب ہونا درست ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًافَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَo﴾ (فصلت:۱۱)
’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، اور وہ دھواں ہی دھواں تھا، تو فرمایا اس سے اور زمین سے کہ تم دونوں آؤ خوشی خوشی یانا خوشی۔ انہوں نے کہا: ہم آتے ہیں خوشی خوشی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو مخاطب کیا اور ان کے جواب کا بھی ذکر کیا۔ اور ان کا جواب جمع عقلاء (طائعین ) کے ساتھ دیا، نہ کہ طائف کے ساتھ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آگ سے فرمایا:
﴿یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَo﴾ (الانبیاء:۶۹)
’’اے آگ! ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔‘‘
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اسی طرح قرآن میں آتا ہے:
﴿یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ وَ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَo﴾ (سبا:۱۰)
’’اے پہاڑو! تسبیح دہراؤ اس کے ساتھ اور پرندو تم بھی۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں پہاڑ ان کے ساتھ مل کر تسبیح دہرایا کرتے تھے۔
حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قلم کو لکھنے کا حکم دیا تو اس نے اس حکم کی تعمیل کردی، مگر اسے یہ اشکال لاحق ہوا کہ وہ کیا لکھے؛ اس لیے کہ حکم مجمل تھا۔ لہٰذا اس نے وضاحت چاہی کہ: ’’کیا لکھوں ؟‘‘
[قال]… یعنی اللہ نے فرمایا۔
[اکتب ماہو کائن إلی یوم القیامۃ]… وہ سب کچھ لکھ دے جو قیامت تک ہونے والا ہے۔ چنانچہ قلم نے
|