’’اور جب وہ مدین کے پانی پر پہنچا تو اس پر لوگوں کی ایک جماعت پائی جو پانی پلوارہی تھی۔‘‘
یہ ہمارے علم میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پانی کے اندر نہیں اترے تھے، بلکہ وہ اس کے آس پاس اور قریب رہ رہے تھے ۔ اس بناء پر نہ تو کوئی اشکال پیدا ہوتا ہے اور نہ کوئی معارض۔
ثانیاً: جن مفسرین کے نزدیک درود سے مراد داخل ہونا ہے اور یہ کہ ہر انسان کو جہنم میں داخل ہونا ہے۔ تو اس قول کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ وہ ازراہ عذاب اور اہانت اس میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ تنفیذ قسم کے لیے ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ورود سے بیعت رضوان کرنے والے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم مستثنیٰ ہیں ۔
[الشجرۃ] … یہ درخت بیری کا تھا یا ببول کا۔ مگر یہ اختلاف بلا مقصد ہے۔ وہ ایک سایہ دار درخت تھا جس کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے بیعت لی، یہ درخت خلافت فاروقی کے آغاز تک موجود تھا،جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ بتایا گیا کہ لوگ وہاں جا کر اس کے قریب نماز پڑھتے ہیں تو انہوں نے اسے کاٹ دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ اسے کاٹ دیا گیا۔[1]
میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’میں نے یہ بات صحیح سند کے ساتھ ابن سعد کے ہاں پائی لیکن ’’صحیح بخاری‘‘[2] میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ ہم آئندہ سال جب ادھر آئے تو جس درخت کے نیچے ہم نے بیعت کی تھی ہم میں سے دو آدمی بھی اس کے پاس اکٹھے نہ ہوئے، یہ اللہ کی رحمت تھی۔ حضرت سعید کے والد حضرت مسیب فرماتے ہیں : جب ہم آئندہ سال ادھر گئے تو اس درخت کوبھول گئے اور اسے تلاش نہ کر سکے۔
حضرت مسیب کا یہ قول ابن سعد کے حوالے سے ابن حجر رحمہ اللہ کے ذکر کے منافی نہیں ہے؛ اس لیے کہ اسے بھول جانا اس کے عدم وجود کو مستلزم نہیں ہے۔ اور نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ لوگ اس کے بعد بھی اسے بھولے رہے۔ واللہ اعلم۔
اس بات کا شمار عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حسنات میں ہوتا ہے اس لیے کہ ہمارے خیال میں اگر یہ درخت آج تک موجود رہتا تو اس کی اللہ کے سوا پرستش کی جاتی۔
اہل سنت کا جنتی ہونے کی گواہی دینا جس کے جنتی ہونے کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ویشہدون بالجنۃ لمن شہد لہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کالعشرۃ وثابت بن قیس بن شماس، وغیرہم من الصحابۃ۔))
’’اہل سنت اس شخص کے لیے جنت کی گواہی دیتے ہیں جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی گواہی دی۔ جس طرح کہ عشرہ مبشرہ، ثابت بن قیس بن شماس اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ۔‘‘
|