لایا گیا ہے کہ میزان ایک ہوگا، یا اسے ہر امت کے میزان کے اعتبار سے مفر دلایا گیا ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘ سے مراد : ’’ ثقیلتان فی الوزن‘‘ہے۔
مگر ظاہر یہ ہے ۔ واللّٰہ اعلم کہ قیامت کے دن میزان ایک ہوگا، اور جمع اسے موزون کے اعتبار سے لایا گیا ہے۔ اور اس کی دلیل ہے:
﴿فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ﴾ (الاعراف:۸)’’پس جس شخص کے وزن بھاری ہوگئے۔‘‘
[فَتُنْصَبُ الْمَوَازِیْنُ] … اس عبارت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن رکھے گئے ترازو بہت حسّی ہوں گے اور یہ کہ وزن راجح اور مرجوح کے معہود کے مطابق ہوگا، اور یہ اس لیے کہ کتاب و سنت میں وارد کلمات میں اصل یہ ہے کہ انہیں معہود معروف پر محمول کیا جائے اِلّا یہ کہ کوئی دلیل اسے اس مفہوم سے خارج کر دے۔نزول قرآن حکیم سے آج تک مخاطبین کے نزدیک معہود معروف یہ ہے کہ میزان حسّی ہوتا ہے اور راحج ومرجوح بھی۔
مگر ایک جماعت کو اس سے اختلاف ہے۔
معتزلہ کے نزدیک قیامت کے دن حسی میزان کا کوئی وجود نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کے اعمال کا علم ہے اور اس نے انہیں شمار کر رکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میزان سے مراد معنوی میزان ہے، جو کہ عدل سے عبارت ہے۔
مگر معتزلہ کا یہ قول باطل ہے، اس لیے کہ یہ ظاہر لفظ اور اجماع سلف کے مخالف ہے، نیز اس لیے بھی کہ اگر ہم میزان سے عدل مراد لیں تو پھر اسے میزان سے تعبیر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اسے عدل سے تعبیر کرنا چاہیے تھا،اس لیے کہ وہ دل کو کلمہ (میزان) سے زیادہ بھاتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا:
﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ﴾ (النحل:۹۰) ’’یقینا اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘
روزِ قیامت بندوں کے اعمال کو تولا جائے گا
[فَتُوْزَنُ بِہَا اَعْمَالُ الْعِبَادِ۔] … مؤلف رحمہ اللہ کا یہ قول اس امر میں صریح ہے کہ جو چیز تو لی جائے گی وہ انسان کے اعمال ہوں گے۔اس جگہ دو بحثیں کی جاسکتی ہیں :
پہلی بحث: عمل کا وزن کس طرح کیا جاسکتا ہے، وہ جسم تو نہیں ہے کہ اس کا وزن کیا جاسکے، عمل تو عامل کے ساتھ قائم ایک وصف کا نام ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی اعمال کو اجسام میں تبدیل کردے گا جو کہ اس کی قدرت کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں ہے، اور اس کی نظیر مو ت ہے، اسے قیامت کے دن مینڈھے کی شکل دے کر جنت اور دوزخ کے درمیان ذبح کر دیا جائے گا۔[1] حالانکہ موت ایک معنوی چیز ہے، وہ جسم نہیں ہے، ذبح ملک الموت کو نہیں کیا جائے گا، بلکہ نفس موت کو کیا جائے
|