ہوگئے۔ اور مجرد کی مثال یہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسْتَوٰی﴾ (القصص: ۱۴) ’’اور جب موسیٰ جوانی کو پہنچے اور پورے توانا ہوگئے۔‘‘ یعنی کامل ہوگئے۔
تنبیہ:…اگر ہم یہ کہیں کہ استواء علی العرش کا معنی عرش پر بلند ہونا ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد عرش پر مستوی ہوا، تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ قبل ازیں عالی نہیں تھا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس بات کو مستلزم نہیں ہے، اس لیے کہ استواء علی العرش مطلق علو سے خاص ہے، یعنی ایسا علو جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص اور کل مخلوقات کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے علو از ازل تا ابد ثابت ہے اور وہ عرش پیدا کرنے سے پہلے بھی ہر چیز پر عالی تھا۔ عرش پر عدم استواء سے اس کا عدم علو لازم نہیں آتا۔ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کے بعد اس نے عرش پر علو خاص اختیار فرمایا:
سوال : ہم آیہ کریمہ سے جو کچھ سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرتے وقت عرش پر مستوی نہیں تھا مگر کیا وہ انہیں پیدا کرنے سے پہلے عرش پر مستوی تھا یا نہیں ؟
جواب : اس کا بہتر علم اللہ کے پاس ہے۔
سوال : کیا اللہ تعالیٰ کا اپنے عرش پر استواء صفات فعلیہ سے ہے یا ذاتیہ سے؟
جواب : اس کا شمار صفات فعلیہ میں ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ اس کی مشیت سے متعلق ہے اور اس کی مشیت سے تعلق رکھنے والی ہر صفت کا شمار صفات فعلیہ میں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس کی مخلوق پر علو کا اثبات
٭ مؤلف رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے اس کی مخلوق پر علو کے اثبات کے لیے چھ آیات ذکر کی ہیں :
پہلی آیت: ﴿یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ﴾ (آل عمران: ۵۵) ’’اے عیسیٰ! یقینا میں تجھے پورا پورا لینے والا ہوں ۔ اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ۔‘‘
شرح:…خطاب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے ہو رہا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے بغیر باپ کے صرف ماں سے پیدا فرمایا، یہی وجہ ہے کہ انہیں ان کی ماں کی طرف منسوب کرتے ہوئے عیسیٰ بن مریم کہا جاتا ہے۔
علماء کی رائے
[اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ]… اس میں علماء کے تین اقوال ہیں :
پہلا قول: ﴿اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ﴾ بمعنی قابضک ہے، یعنی میں تجھے قبض کرنے والا ہوں ، عرب کہتے ہیں : توفّی حقہ،اس نے اپنا حق وصول کر لیا۔
دوسرا قول: ﴿اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ﴾ کا معنی ہے: میں تجھے سلانے والا ہوں ، اس لیے کہ نیند بھی ایک طرح سے وفات
|