[کَمَا یَرَوْنَ الشَّمْسَ صَحْوًا لَیْسَ دُوْنِہَا سَحَابٌ ]… اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ’’تم اللہ تعالیٰ کو اس طرح دیکھو گے جس طرح صاف سورج کو دیکھتے ہو جس کے سامنے بادل نہ ہو۔‘‘ [1]
رؤیت سے مراد، رؤیت بالعین ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس رؤیت کو اس سورج کی رؤیت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کے سامنے بادل نہ ہو۔
اہل ایمان کا قیامت کے میدان میں زیارت کرنا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((یَرَوْنَہُ سُبْحَانَہُ وَہُمْ فِیْ عَرَصَاتِ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَرَوْنَہُ بَعْدَ دُخُوْلِ الْجَنَّۃِ کَمَا یَشَائُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔))
’’اہل ایمان پہلے قیامت کے وسیع وعریض میدانوں میں ربّ تعالیٰ کی زیارت کریں گے اور پھر دخول جنت کے بعد اس سے مشرف ہوں گے، جس طرح اللہ تعالیٰ چاہے گا۔‘‘
شرح:… [عَرَصَاتِ] … عرصۃکی جمع ہے، اور عرصہ ایسی وسیع وعریض جگہ کو کہتے ہیں جس میں کوئی عمارت نہ ہو، اور یہ اس لیے کہ قیامت کے دن زمین کو کھال کی طرح پھیلا دیا جائے گا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ [2]
اہل ایمان قیامت کے دن کے میدانوں میں جنت میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے، جس طرح کہ اس نے اس دن کی تکذیب کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:
﴿کَلَّا اِِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ﴾ (المطففین:۱۵)
’’ہرگز نہیں اس دن یہ لوگ اپنے ربّ سے اوٹ میں رکھے جائیں گے۔‘‘
یعنی وہ قیامت کے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم رہیں گے۔
﴿یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (المطففین:۶)
’’جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‘‘
اسی طرح وہ جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی دیدار الٰہی سے نوازے جائیں گے۔
قیامت کے میدانوں میں تین قسم کے لوگ ہوں گے:
۱۔ ظاہر وباطن کے اعتبار سے خالص مومن۔
|