Maktaba Wahhabi

368 - 552
تَعَالٰی حَقِیْقَۃٌ ؛ فَاِنَّ الْکَلَامَ اِنَّمَا یُضَافُ حَقِیْقَۃً اِلٰی مَنْ قَالَہُ مُبْتَدِئًا لَا اِلٰی مَنْ قَالَہُ مُبَلِّغًا مُؤَدِّیًا۔)) ’’لوگ قرآنِ مجید کو مصاحف میں لکھیں یا اس کی تلاوت کریں ، وہ ’’کلام اللہ‘‘ ہونے سے خارج نہیں ہوجاتا، اس لیے کہ کلام حقیقتاً اس کی طرف منسوب ہوتا ہے جس نے اس کے ساتھ ابتدا میں تکلم کیا ہے، وہ اس کی طرف منسوب نہیں ہوتی جس نے اسے آگے پہنچانے کے لیے ایسا کیا ہو۔‘‘ شرح:…یعنی لوگ قرآنِ مجید کو اپنے سینوں میں محفوظ کریں ، اس کی تلاوت کریں یا اسے مصاحف میں لکھیں ، وہ اپنے کلام اللہ ہونے سے خارج نہیں ہوتا۔ پھر مؤلف اس کی علت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : ((فان الکلام انما یضاف حقیقۃ إلی من قالہ مبتدأً۔)) یہ بڑی واضح دلیل ہے، حقیقتاً کلام کی اضافت اس کی طرف ہوتی ہے جو اسے ابتدائً کہے، اگر اسے اس کی طرف مضاف کیا جائے گا جو اسے آگے پہنچانا چاہتا ہو تو یہ علی سبیل التوسع ہوگا، نہ کہ علی سبیل الحقیقت۔ مثلاً اگر آپ اس وقت یہ شعر پڑھیں : حُکْمُ الْمَحَبَّۃِ ثَابِتُ الْاَرْکَانِ مَا لِلصُّدُودِ بِفَسْخِ ذَاکَ یَدَانِ تو یہ شعر حقیقتاً ابن قیم کی طرف منسوب ہوگا۔ [1] اسی طرح اگر آپ یہ شعر پڑھیں گے: کَلَامُنَا لَفْظٌ مُفِیْدٌ کَاسْتَقِمْ وَاسْمٌ وَفعْلٌ ثُمَّ حَرْفٌ الْکَلِمُ تو یہ حقیقتاً ابن مالک کی طرف منسوب ہوگا۔ [2] الغرض! کلام کو حقیقتاً پہلے قائل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ قرآن اس کا کلام ہے جس نے اوّلاً اس کے ساتھ تکلم کیا، اور وہ ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ، وہ دوسروں تک پہنچانے والے کا کلام نہیں ہے۔ قرآن کے حروف و معانی اللہ کی جانب سے ہیں ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَہُوَ کَلَامُ اللّٰہِ ، حُرُوْفُہُ وَمَعانِیْہِ۔)) ’’قرآن کلام اللہ ہے، اس کے حروف بھی اور اس کے معانی بھی۔‘‘ شرح:…یہ اہل سنت کا مذہب ہے، ان کے نزدیک اللہ نے قرآنِ مجید کے حروف اور معانی سمیت اس کا تکلم فرمایا۔
Flag Counter