Maktaba Wahhabi

422 - 552
سورۂ احزاب میں ان کا ذکر اس ارشاد باری میں کیا گیا ہے: ﴿وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَہُمْ وَ مِنْکَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰہِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ﴾ (الاحزاب:۷) ’’اور جب ہم نے نبیوں سے ان کا میثاق لیا، اور تم سے اور نوح سے، ابراہیم سے، موسیٰ سے اور عیسیٰ ابن مریم سے۔‘‘ جبکہ سورۂ شوریٰ میں ان کا ذکر اس ارشاد ربانی میں موجودہے: ﴿شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی﴾ (الشوریٰ : ۱۳) ’’اس نے تمہارے لیے وہی دین مشروع کیا جس کا حکم اس نے نوح کو دیا، اور جس کو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا، اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا۔‘‘ تنبیہ:…مؤلف رحمہ اللہ کا قول: الانبیاء: آدم و نوح و ابراہیم و موسی و عیسی ابن مریم عن الشفاعۃ اس امر کا قطعی فیصلہ ہے کہ حضرت آدم اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، اور حقیقت بھی یہی ہے، اس لیے کہ اللہ رب کائنات نے اپنے اوامر و نواہی کو ان کی طرف وحی کیا تھا۔ ابن حبان اپنی ’’صحیح‘‘[1] میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا حضرت آدم نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ‘‘ آدم علیہ السلام پہلے نبی تھے جن کی طرف وحی بھیجی گئی تھی، جبکہ پہلے رسول نوح علیہ السلام ہیں جس طرح کہ حدیث شفاعت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ اور قرآن میں اس ارشاد باری سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے: ﴿اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ﴾ (النساء:۱۶۳) ’’یقینا وحی کی ہم نے آپ کی طرف جس طرح وحی کی ہم نے نوح اور ان کے بعد دوسرے نبیوں کی طرف۔‘‘ نیز اس ارشاد سے بھی: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِِبْرٰہِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ﴾ (الحدید:۲۶) ’’اور یقینا ہم نے بھیجا تھا نوح اور ابراہیم کو، اور ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب کا سلسلہ جاری رکھا۔‘‘ دوسری شفاعت ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وأما الشفاعۃ الثانیۃ؛ فیشفع فی اہل الجنۃ ان یدخلواالجنۃ۔)) ’’رہی دوسری شفاعت ؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل جنت کی شفاعت کریں گے کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں ۔‘‘
Flag Counter