حضرت آدم علیہ السلام والی بات کہہ دیں گے اور پھر فرمائیں گے:میں نے ایک ایسی جان کو قتل کر ڈالا تھا جسے قتل کرتے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ تم لوگ عیسیٰ کے پاس جاؤ، اس پر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے: آپ اللہ کے رسول اور اس کا وہ کلمہ ہیں جو اس نے مریم میں القاء کیا اور اس کی روح ہیں ۔ آپ نے بچپن میں لوگوں سے کلام کیا۔ اپنے رب کے سامنے ہماری شفاعت کریں ، آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس مشکل سے دو چار ہیں ؟ حضرت عیسیٰ بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حضرت آدم والی بات دہرادیں ۔ مگر وہ اپنے کسی گناہ کا ذکر نہیں کریں گے، وہ فرمائیں گے: تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ اس پر وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے، اور عرض کریں گے: آپ اللہ تعالیٰ کے رسول، اور خاتم النبیین ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں ، اپنے پروردگار کے پاس ہماری شفاعت کریں : اس وقت ہم بڑی مشکل میں گرفتار ہیں ۔ اس پر میں چل دوں گا اور عرش رحمن کے نیچے جاکر اپنے رب کے لیے سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی حمد و ثناء کی ایسی ایسی چیزیں مجھ پر کھولے گا جو اس نے مجھ سے قبل کسی پر بھی نہیں کھولیں ۔ پھر کہا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھائیں ، سوال کریں ، آپ کو دیا جائے گا، اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا…‘‘ الحدیث۔ [1]
ابراہیم علیہ السلام نے جن تین جھوٹوں کا ذکر کیا ان کی تفسیر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح بخاری کی حدیث میں اس طرح کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے، ان میں سے دو ذات باری تعالیٰ کے بارے میں تھے، ایک ان کا یہ فرمانا کہ : (انی سقیم) ’’بیشک میں بیمار ہوں ‘‘ اور دوسرا ان کا یہ قول: ﴿بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُہُمْ ہٰذَا﴾ (الانبیاء:۶۳)’’بلکہ یہ کام ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا۔‘‘
اور ان کا اپنی بیوی سارہ کے بارے میں یہ کہنا کہ: ’’یہ میری بہن ہے۔‘‘
’’صحیح مسلم‘‘میں شفاعت کی گزشتہ حدیث میں وارد ہے کہ ان کا تیسرا جھوٹ ان کا ستارے کے بارے میں یہ فرمانا تھا: ﴿ہٰذَا رَبِّیْ﴾ ’’یہ میرا رب ہے‘‘ اس میں سارہ کا واقعہ نہیں ہے لیکن ابن حجر ’’فتح الباری ‘‘[2] میں فرماتے ہیں :بظاہر یہ کسی راوی کا وہم لگتا ہے، اور انہوں نے اس کی یہ علت بیان کی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے از راہ تواضع ان باتوں کو جھوٹ سے تعبیر کیا، اس لیے کہ یہ ان کے ارادے کے مطابق مبنی پر صداقت اور واقع کے عین مطابق ہیں ۔ ان کا یہ فرمانا تو ریہ کے باب سے ہے۔
[حتی تنتہی إلیہ]… یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔ اس کے بعد جو کچھ ہوگا۔ وہ حدیث میں گزر چکا ہے۔
اس شفاعت عظمی کا حق صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہوگا۔ اور یہ سب سے بڑی شفاعت ہوگی، اس لیے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو اس دن کے کرب ودرد اور غم واندوہ سے راحت حاصل ہوگی۔
حدیث شفاعت میں جن رسولوں کا ذکر آیا ہے، ان سب کا شمار اولوا العزم رسولوں میں ہوتاہے، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو جگہ ذکر فرمایاہے: سورۂ احزاب میں اور پھر سورۂ شوریٰ میں ۔
|