ثانیًا: یہ شریعت کو معیوب اور ناقص قرار دینے کو مستلزم ہے۔ جسے گویا اس بدعتی نے مکمل کیا۔
ثالثاً: یہ ان مسلمانوں کو لعن و طعن کرنے کو مستلزم ہے جنہوں نے یہ کام نہیں کیا، اور یہ کہ ان بدعات سے پہلے کے لوگوں کا دین ناقص اور غیر مکمل تھا۔ اور یہ بات انتہائی خطرناک ہے۔
رابعًا: بدعات کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام طور پر بدعت کا دلدادہ سنت سے غافل ہو جاتا ہے۔ بعض علماء سلف کا قول ہے: جس قوم نے کوئی بدعت جاری کی اس نے اس جیسی سنت گنوادی۔
بدعت کی مختلف اقسام بنانے والا غلطی پر ہے
خامسًا: بدعات امت میں تفرقہ بازی کا سبب بنتی ہیں : اس لیے کہ بدعتی لوگ اپنے آپ کو حق پر اور دوسروں کو گمراہ خیال کرتے ہیں جبکہ پیروانِ حق انہیں گمراہ بتاتے ہیں ۔ اس طرح ان کے دلوں میں بعد پیدا ہو جاتا اور امت تقسیم ہو جاتی ہے۔
یہ بڑے بڑے مفاسد ہیں جو کہ بدعت پر اس کے بدعت ہونے کی وجہ سے مرتب ہوتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کسی نے بدعت کو تین، پانچ یا سات قسموں میں تقسیم کیا ہے، اس نے یقینا غلط کیا ہے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ فرما کر ہر بدعت کو گمراہی قرار دے رہے ہیں ، تو ’’کلٌ‘‘ کے اس مضبوط حصار کو توڑ کر ہمیں کون سی چیز اس سے باہر نکالے گی، حتی کہ ہم بدعت کو کئی قسموں میں تقسیم کرنے کی جرأت کرنے لگیں ؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعہ ھذہ کی وضاحت
سوال: آپ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بارے میں کیا کہیں گے کہ جب انہوں نے لوگوں کو رمضان المبارک میں امام کی اقتداء میں نماز تروایح پڑھتے دیکھا، تو فرمایا: نعمت البدعۃ ہذہ ’’ یہ بڑی اچھی بدعت ہے۔‘‘آپ نے اس عمل کی تعریف فرمائی اور اسے بدعت سے موسوم کیا؟[1]
جواب: سائل نے جس بدعت کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں دیکھنا پڑے گا کہ کیا اس پر بدعت شرعیہ کے وصف کا انطباق ہوتا ہے یا نہیں ؟ جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس پر بدعت شرعیہ کے وصف کا انطباق نہیں ہوتا، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین راتیں نماز پڑھائی پھر اسے اس خوف کے پیش نظر ترک کر دیا کہ وہ ان پر فرض قرار دے دی جائے گی، اس طرح اس نماز کی مشروعیت ثابت ہو گئی اور اس کے بدعت ہونے کی نفی ہوگئی۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز خود پڑھی اور دوسروں کو پڑھائی۔ لہٰذا ہمارے لیے اسے بدعت کہنا ممکن نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اگر بدعت سے موسوم کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے اسے ترک کر رکھا تھا، وہ اسے کسی ایک امام کی اقتداء میں نہیں بلکہ الگ الگ ادا کرتے تھے، کہیں کوئی آدمی اکیلا ہی پڑھ رہا ہوتا، کہیں دو آدمی اور کہیں تین، زیادہ سے زیادہ چند لوگ مل کر پڑھ لیتے۔ پھر جب انہوں نے لوگوں کو نماز تروایح کی ادائیگی کے لیے ایک امام پر جمع کرایا تو ان کا یہ اجتماع اس نسبت سے بدعت قرار پایا کہ وہ اس سے قبل یہ نماز جدا جدا ادا کرتے تھے۔
|