اس واقعہ کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ایک رات باہر تشریف لائے اور لوگوں کو الگ الگ نماز ادا کرتے دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردوں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے أبی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز پڑھایا کریں ۔ انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے اس حکم کی تعمیل میں لوگوں کو گیارہ رکعت نماز پڑھانا شروع کر دی۔ پھر جب وہ ایک رات مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں کو ایک امام کی اقتدا میں نماز پڑھتے دیکھا، تو فرمانے لگے: یہ بڑی اچھی بدعت ہے۔
اس پس منظر میں یہ نماز اس اعتبار سے بدعت ہے کہ اسے ترک کیے جانے کے بعد دوبارہ وجود میں لایا گیا تھا۔
یہ ہے اسے بدعت کے نام سے موسوم کرنے کی اصل وجہ۔
یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ یہ بدعت شرعیہ تھی جس کی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تعریف کر رہے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ کی صحیح توجیہ
اگر آپ یہ کہیں کہ اس میں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں تطبیق کی کیا صورت ہے:
((من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ۔))[1]
’’جو شخص اسلام میں کسی اچھے طریقہ کو رواج دے گا تو اسے اس کا اجر بھی ملے گا اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا بھی۔‘‘
اس حوالے سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں وہ باہم متناقض نہیں ہوا کرتے، سنت حسنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سنت مشروعہ ہے، جب کہ اسے رواج دینے سے مراد اس پر عمل کرنا ہے۔اس امر سے آگاہی اس حدیث کا پس منظر معلوم کرنے پر ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس وقت ارشاد فرمائی جب ایک انصاری مسلمان نے دراہموں سے بھری تھیلی لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی، اور یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مضر قبیلہ کے کچھ لوگوں کی ناگفتہ بہ حالت کو دیکھ کر ان سے مالی تعاون کرنے کی دعوت دی۔ اس قبیلہ کا شمار کبار عرب میں ہوتا تھا، جب یہ لوگ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی حالت زار کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور متغیر ہو گیا، اس پر آپ نے لوگوں کو ان سے مالی تعاون کرنے کی ترغیب دلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جب اس شخص نے سب سے پہلے یہ تھیلی پیش کی تو آپ نے فرمایا:
((من سنَّ فی الاسلام سنَّۃ حسنۃً، فلہ أجرہا و أجر من عمل بہا إلی یوم القیامۃ۔))
’’یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سنت حسنہ سے مراد ایسی چیز ہے جسے کوئی انسان اس لیے ایجاد کرتا ہے تاکہ وہ کسی شروع چیز کا ذریعہ ثابت ہو سکے۔ ‘‘
|