سے زمین پر آئے تو ذات باری میں تنقیص کے مرتکب ہوئے۔
رابعاً: تمہارے اس قول سے دو باتوں میں سے ایک ضرور لازم آتی ہے، جبکہ وہ دونوں ممتنع ہیں ، یا تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے کئی اجزاء ہیں اور ان میں سے ہر جزء کسی جگہ موجود ہوتا ہے، یا پھر الٰہ ایک نہیں بلکہ کئی ہوں اور ہر الٰہ ضرورت کے مطابق ہر جگہ موجود ہو۔
خامساً: تمہارا یہ قول اس بات کو بھی مستلزم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں حلول کیے ہوئے ہے، جو کہ وحدۃ الوجود کے قائلین کے لیے سیڑھی کا کام دیتا ہے۔ جب کہ یہ قول باطل اور اس کا مقتضیٰ کفر ہے۔
لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین پر ہمارے ساتھ ہے، وہ کافر ہے، اسے اس عقیدہ سے توبہ کرنے کو کہا جائے اور اس پر حق اشکارا کیا جائے، اگر وہ اس سے رجوع کرلے تو فبھا، ورنہ اسے قتل کرنا واجب ٹھہرے گا۔
آیات معیت
پہلی آیت:﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo﴾ (الحدید: ۴) ’’وہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوا، وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے، اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔‘‘
شرح:…شاہد اس ارشاد باری میں ہے:﴿وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ﴾ اس میں معیت عامہ کا بیان ہے، اس لیے کہ یہ ازروئے علم وقدرت اور سمع وبصر مخلوق کے احاطہ کا متقاضی ہے۔
دوسری آیت: ﴿مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰی ثَــلَاثَۃٍ اِِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَا اَکْثَرَ اِِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo﴾ (المجادلۃ:۷)’’نہیں ہوتا کوئی مجمع تین سرگوشی کرنے والوں کا مگر وہ (اللہ) ان میں چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کا مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ جہاں بھی ہوں پھر وہ قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال کی خبر دے گا۔ یقینا اللہ تعالیٰ ہر ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
شرح:…[مَا یَکُوْنُ]… (یکون) تامہ ہے، یعنی نہیں پایا جاتا۔
[ مِنْ نَّجْوَی ثَـلَاثَۃٍ]… یہ صفت کی موصوف کی طرف اضافت کے باب سے ہے۔ جس کی اصل عبارت یوں ہے: من ثلاثۃ نجویٰ، اور (نجوی) کا معنی ہے: سرگوشی کرنے والے۔
[اِِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ]… اللہ تعالیٰ نے (الا وہو ثالثہم) نہیں فرمایا، اس لیے کہ یہ غیر جنس سے ہے، غیر جنس سے ہونے کی صورت میں اگلا عدد لایا جاتا ہے، جبکہ جنس سے ہونے کی صورت میں وہی عدد ذکر کیا جاتا ہے، ملاحظہ ہو نصاریٰ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی:
|