ایسے مفعول سے کرتے ہیں جو اللہ سے منفصل ہو اور وہ ہے انتقام یا ارادہ کیونکہ وہ اس کا اقرار کرتے ہیں ، وہ اس کی کسی بھی ایسی صفت کے ساتھ تفسیر نہیں کرتے جو علی وجہ الحقیقہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے شایان شان ثابت ہو۔
جبکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ سخط وغضب انتقام سے مختلف ہیں ، انتقام ان دونوں کا نتیجہ ہوا کرتا ہے، جس طرح کہ رضیٰ کا نتیجہ ثواب ہوا کرتا ہے۔ پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان لوگوں پر ناراض ہوتا ہے، غضب ناک ہوتا ہے اور پھر ان سے انتقام لیتا ہے۔
اگر وہ یہ کہیں کہ اللہ کے لیے سخط اور غضب کے ثبوت سے عقل انکار کرتی ہے، تو اس کا بھی وہی جواب ہے جو صفت رضیٰ کی بحث میں گزر چکا ہے، اس لیے کہ باب ایک ہی ہے۔
ہم کہیں گے کہ عقل سخط اور غضب پر دلالت کرتی ہے، مجرموں سے انتقام لینا اور کافروں کو عذاب دینا سخط وغضب کی دلیل ہے۔
قرآنی آیت ﴿فَلَمَّا آسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ﴾ (الزخرف: ۵۵) ’’تمہاری تردید کرتی ہے جس میں انتقام کو غضب کا غیر قرار دیا گیا ہے‘‘ اس لیے کہ شرط اور مشروط دو الگ الگ چیزیں ہوتی ہیں ۔
کیا غم اور ندامت اللہ کی صفات ہیں ؟
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسف کسی ایسی گزشتہ چیز پر غم اور ندامت سے عبارت ہے جس کا ازالہ کرنا نادم کے بس میں نہ ہو، تو کیا اللہ تعالیٰ کو غم اور ندامت سے متصف قرار دیا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب انکار کی صورت میں یہ ہے کہ عربی زبان میں آسف کے دو معنی ہیں :
معنی اول: أسف بمعنی غم، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ﴾ (یوسف: ۸۴) ’’ہائے افسوس یوسف کے گم ہونے پر، اور غم کی وجہ سے ان کی آنکھیں سفید پڑ گئیں ۔‘‘
معنی دوم: أسف کا اطلاق غضب پر بھی ہوتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے، أسف علیہ یأسف، بمعنیٰ غضب علیہ۔ وہ اس پر ناراض ہوا۔
اللہ تعالیٰ کی نسبت سے پہلا معنی ممتنع ہے جبکہ دوسرا معنی ثابت ہے، اس لیے کہ اللہ نے اس کے ساتھ اپنا وصف خود بیان کیا ہے: ﴿فَلَمَّا أسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ﴾ ’’جب انہوں نے ہمیں ناراض کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مندرجہ ذیل صفات کا ذکر ہے: غضب اور انتقام۔
اور سلوکی حوالے سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی باتوں سے خبردار کیا گیا ہے۔
چوتھی آیت: ﴿وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ﴾ (التوبۃ: ۴۶)
’’مگر اللہ نے ان کا اٹھنا ناپسند کیا تو انہیں روک دیا۔‘‘
شرح:… اس سے مراد وہ منافقین ہیں ، جو غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے کہ ان کا اٹھنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند تھا اور اس کی وجہ سے ان کا غیر مخلص ہونا تھا، اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے
|