Maktaba Wahhabi

319 - 552
اس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان اور اس کے دل کی حالت کی عکاسی کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ مایوسی کا شکار ہے، جبکہ اس کا دل مایوس اور خوشحالی کو بعید خیال کیے بیٹھا ہے۔ [فَیَظَلُّ یَضْحَکُ ] …یعنی اللہ تعالیٰ بندے کی اس عجیب وغریب حالت کو دیکھ کر ہنسنے لگتا ہے کہ وہ اس ارحم الراحمین کی رحمت سے مایوس ہے جو ایک کلمہ (کن) سے سب کچھ تبدیل کر سکتا ہے۔ [یَعْلَمُ اَنَّ فَزََجَکُمْ قَرِیْبٌ۔] … یعنی اسے معلوم ہے کہ تمہاری سختی کا زوال ہونے کو ہے۔ حدیث مذکورہ میں بیان کردہ صفات اس حدیث میں کئی صفات کا ذکر ہے: تعجب: جو اس ارشاد گرامی سے مستنبط ہے: ’’عجب ربنا من قنوط عبادہ‘‘ اس صفت پر قرآن کریم بھی دلالت کرتا ہے: ﴿بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ﴾ (الصافات: ۱۲) (تاء کے ضمہ کی قراء ت پر) ’’بلکہ میں نے تعجب کیا اور وہ مذاق اڑا رہے ہیں ۔‘‘ قدرت: اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وقرب غیرہ‘‘ نیز یہ کہ وہ تام القدرت ہے۔ جب چاہتا ہے مختصر وقت میں ایک حالت کو دوسری حالت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ نظر: اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ینظر الیکم۔ ضحک: (ہنسی) اس لیے کہ آپ نے فرمایا: فیظل یضحک۔ علم، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یعلم ان فرجکم قریب۔ رحمت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراخی بندوں کے ساتھ اس کی رحمت کی دلیل ہے۔ جن جملہ صفات پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے ہم پر اللہ تعالیٰ کے لیے ان کا ان کی حقیقت کے مطابق اثبات واجب ہے۔ ان میں تاویل کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ اس حدیث میں سلوکی فائدہ یہ ہے کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس بات کا علم ہوگا، تو وہ اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہوگا، رحمت ایزدی سے مایوس ہونا کبیرہ گناہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَالَ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَo﴾ (الحجر: ۱۵) ’’ابراہیم نے کہا: گمراہوں کے علاوہ اپنے رب کی رحمت سے کون مایوس ہو سکتا ہے۔‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَo﴾ (یوسف: ۸۷) ’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا کہ اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ۔‘‘
Flag Counter