فصل:
کرامات اولیاء کے بارے میں
کرامات اولیاء بڑا اہم مسئلہ ہے۔ لہٰذا ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس بارے میں حق کیا ہے اور باطل کیا؟ کیا یہ حقیقت ثابتہ ہیں یا ان کا شمار باب تخیلات میں ہوتا ہے؟
٭ اس بارے میں مؤلف رحمہ اللہ اہل سنت کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
((ومن أصول اہل السنۃ: ألتصدیق بکرامات الأولیاء۔))
’’اہل سنت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وہ کرامات اولیاء کی تصدیق کرتے ہیں ۔‘‘
شرح:…اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اولیاء کون ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کواس طرح واضح فرمایا ہے:
﴿اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَo﴾ (یونس:۶۳۔۶۲)
’’خبردار! اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے یعنی وہ جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔‘‘
شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہوتا ہے۔‘‘[1]
ولایت دعویٰ و تمنا سے نہیں بلکہ ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے بارے میں ولی ہونے کا دعویٰ کرے مگر وہ تقویٰ و طہارت سے عاری ہو تو اس کا یہ دعویٰ ردّ کر دیا جائے گا۔
کرامت کی تعریف
کرامات:کرامۃکی جمع ہے، اور یہ خارق عادت چیز سے عبارت ہے جس کا اللہ تعالیٰ ولی کے ہاتھ پر اجرا فرماتا ہے جس سے مقصود اس کی تائید ہوتی ہے، یا اعانت یا تثبیت یا پھر دین کی نصرت و اعانت۔
صلہ بن اَشیم نام کے جس آدمی کا گھوڑا اس کے مرنے کے بعد اللہ نے زندہ کردیا، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر پہنچ گیا اور گھر آنے پر اپنے بیٹے سے کہنے لگا: گھوڑے سے زین اتار دیں ، جب اس نے زین اتار کر رکھ دی تو وہ گر کر مر گیا۔[2] یہ اس شخص کی اطانت کے لیے اس کی کرامت تھی۔
جس کرامت کا اظہار نصرت اسلام کے لیے ہوتا ہے، اس کی مثال حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آنے والا دریا عبور کرنے کا واقعہ ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ دریائے نیل کو عبور کرتے وقت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی
|