رابعاً: صالحین: اس زمرے میں مذکورہ بالا تینوں قسموں کے لوگ بھی آتے ہیں اور مرتبہ میں ان سے کمتر لوگ بھی۔ انبیاء، صدیقین اور شہداء کا شمار بھی میں ہوتا ہے، اس حوالے سے یہ عطف، عطف العام علی الخاص کے باب سے ہے۔
صالحین وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی برابر ادائیگی کرتے ہیں ، مگر ان کا مرتبہ، نبوت وصدیقین اور شہادت کے مرتبہ سے کم ہے۔
جو راستہ انبیاء و رسل لے کر آئے وہ مذکورۃ الصدر لوگوں کے علاوہ ان لوگوں کا بھی راستہ ہے جو زندگی میں انبیاء و رسل کی تعلیمات پر عمل پیرا رہتے ہیں ۔
سورۂ اخلاص قرآن کا ایک تہائی ہے
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَقَدْ دَخَلَ فِیْ ہٰذِہِ الْجُمْلَۃِ مَا وَصَفَ اللّٰہُ بِہِ نَفْسَہُ فِیْ سُوْرَۃِ الْاِخْلَاصِ، الَّتِیْ تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ، حَیْثُ یَقُوْلُ: ﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌo اَللّٰہُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ ۵ وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌo﴾ (الاخلاص:۴۔۱) …))
’’اس جملہ میں وہ چیز داخل ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے سورہ الاخلاص میں اپنے اوصاف بیان کیے ہیں ۔ جو کہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کہہ دو کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کی اولاد، اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے‘‘
سورۂ اخلاص پر مفصل بحث
شرح:… [قَدْ دَخَلَ فِیْ ہٰذِہِ الْجُمْلَۃِ ] … اس امر کا احتمال ہے کہ اس سے مراد مؤلف کا یہ قول ہو: ’’وَہُوَ سُبْحَانَہٗ قَدْ جَمَعَ فِیْمَا وَصَفَ وَسَمّٰی بِہِ نَفْسَہٗ بَیْنَ النَّفْیِ وَالْاِثْبَاتِ۔‘‘جبکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد مؤلف کا یہ گزشتہ قول ہو کہ ’’اہل سنت اللہ تعالیٰ کا وصف ان چیزوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں جن کے ساتھ اس نے خود اپنا وصف بیان کیا ہو یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو۔‘‘ صورت حال جو بھی ہو، یہ سورت اور اس کے مابعد کی گفتگو مؤلف کے اس گزشتہ قول کے ضمن میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوصاف بیان کرتے وقت اور اپنے نام گنواتے وقت نفی واثبات کو جمع فرمایا ہے اور یہ کہ اہل سنت کا اس پر ایمان ہے۔
[فِیْ سُوْرَۃِ الْاِخْلَاصِ] … (سورۃ) کتاب اللہ کی چند ایسی آیات سے عبارت ہے جو اپنے سے ماقبل اور مابعد سے الگ مستقل حیثیت کی حامل ہوں ، بالکل اس عمارت کی طرح جسے چاروں طرف سے دیواروں نے گھیر رکھا ہو۔
سُوْرَۃِ الْاِخْلَاصِ (اخلاص الشی)کسی چیز کو نقائص وعیوب سے مبرا کرنا۔ اسے اس طرح صاف کرنا کہ اس میں کسی چیز کی آمیزش نہ رہے۔ اس سورت کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص پر
|