Maktaba Wahhabi

110 - 552
﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّ یْقُوْنَ﴾ (الحدید: ۱۹) ’’اور وہ جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر تو یہی صدیق ہیں ۔‘‘ ایمان کی تحقیق و تصدیق کرنے والا صدیق ہوا کرتا ہے اور ایمان کی تحقیق صدق سے مکمل ہوتی ہے پھر صدق کی کئی قسمیں ہیں : عقیدہ میں صدق:… اس کا تحقق اخلاص کے ساتھ ہوتا ہے، جو کہ انسان کے لیے مشکل ترین مقام ہے، بعض سلف تو یہاں تک فرماتے ہیں ، میں نے جس قدر اخلاص کے لیے مجاہدہ کیا کسی دوسری چیز کے لیے نہیں کیا۔ مقال میں صدق:… وہ اس طرح کہ انسان وہی بات کرے جو واقع کے مطابق ہو، اس کی زد میں وہ خود آئے یا کوئی اور، مثلاً: اس کا باپ، اس کی ماں ، اس کا بھائی یا اس کی بہن۔ افعال میں صدق:… بایں طور کہ اس کے جملہ افعال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہوں ، یہ بات بھی صدق فی الفعال کے زمرے میں آتی ہے کہ اس کے اعمال وافعال اخلاص پر مبنی ہوں ، بصورت دیگر وہ صدق سے خالی ہوں گے۔ اس لیے کہ اس کا فعل اس کے قول کے خلاف ہے۔ دریں حالات صدیق وہ ہے، جو اعتقاد وارادہ اور قول وعمل میں سچا ہو۔ طبقہ صدیقین میں سے علی الاطلاق افضل ترین سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ، اس لیے کہ تمام امتوں میں سے بہترین اُمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے اور آپ کی امت کے افضل ترین فرد ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ مقام صدیقیت پر مرد بھی فائز ہو سکتے ہیں اور عورتیں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿وَ اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ﴾ (المائدہ:۷۵) ’’اور ان کی ماں صدیقہ تھیں ۔‘‘ اور یہ بھی کہا جاتا ہے: ’’عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بنت صدیق رضی اللہ عنہ ‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرما دیتا ہے۔ ثالثاً: شہداء: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جام شہادت نوش کر جاتے ہیں ، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَo﴾ (آل عمران:۱۴۰) ’’تاکہ اللہ ان کی پڑتال کرے جو ایمان لائے اور تاکہ تم میں سے کچھ کو شہید بنا دے۔‘‘ ایک دوسرے قول کی رو سے شہداء سے مراد علماء ہیں ۔ اور اس کی دلیل یہ ارشاد باری ہے: ﴿شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُو الْعِلْمِ﴾ (آل عمران:۱۸) ’’اللہ گواہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، اور فرشتے اور علم والے بھی گواہ ہیں ۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو اس بات کا شاہد قرار دیا ہے جس کی شہادت اس نے خود اپنی ذات کے لیے دی ہے، نیز اس لیے بھی کہ علماء انبیاء کرام کے حق میں بلاغ اور امتوں کے خلاف ردّ تبلیغ کی گواہی دیں گے۔ بعض لوگوں کا موقف ہے کہ یہ آیت شہداء اور علماء کے لیے عام ہے اس لیے کہ لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے۔
Flag Counter