Maktaba Wahhabi

105 - 552
السّلام علماء فرماتے ہیں اس کا معنی ہے: ہر نقص وعیب سے سالم یعنی اس میں نہ کوئی نقص ہے اور نہ کوئی عیب۔ اس طرح مؤلف رحمہ اللہ کی عبارت سلیم اور صحیح قرار پاتی ہے، وہ اسماء باری تعالیٰ کی نسبت سے یہ نہیں کہنا چاہتے کہ ان میں سے بعض اسماء منفی ہیں ، اس لیے کہ منفی اسم اللہ کا اسم نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اسماء اللہ کے مدلولات ثبوتی بھی ہیں اور سلبی بھی۔ ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( فَـلَا عُدُوْلَ لِأَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَمَّا جَائَ بِہِ الْمُرْسَلُوْنَ ؛ فَإِنَّہُ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِیْنَ۔)) ’’اہل سنت مرسلین کی تعلیمات سے انحراف نہیں کرتے، اس لیے کہ وہ صراط مستقیم ہے، ان لوگوں کا صراط (راستہ) جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء، اور نیکوکار لوگوں کا راستہ۔‘‘ عُدُوْلَ کا معنی شرح:… [فَـلَا عُدُوْلَ لِأَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَمَّا جَائَ بِہِ الْمُرْسَلُوْنَ] … العدول،بمعنی انصراف وانحراف، اہل سنت کے لیے انبیاء و رسل کی تعلیمات سے انحراف کرنا ممکن نہیں ہے۔ مؤلف نفی کا یہ اسلوب اختیار کر کے اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اہل سنت کے لیے ان کی کمال درجے کی اتباع کی وجہ سے رسولوں کی تعلیمات سے روگردانی اختیار کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ انبیاء کا اللہ کے بارے میں خبر دینا اور ان پر ایمان لانا و اجب ہے پیغمبران جو کچھ بھی لے کر آئے وہ اسے مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں اور کسی بھی صورت اس سے انحراف نہیں کرتے، بلکہ وہ احکام کے بارے میں کہا کرتے ہیں کہ: ہم نے انہیں سنا اور تسلیم کیا اور اخبار کے بارے میں کہتے ہیں : ہم نے سنا اور تصدیق کی۔ عَمَّا جَائَ بِہِ الْمُرْسَلُوْنَ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر آئے اس سے انحراف کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ آپ خاتم النبیین ہیں ، سب لوگوں پر آپ کی اتباع کرنا واجب ہے، لیکن آپ کے علاوہ دوسرے رسولوں کی طرف سے جو کچھ آیا، تو اہل سنت کے لیے اس سے انحراف کرنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ان سے اخبار کے باب میں جو کچھ منقول ہوا تو وہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ وہ صادق ہیں ، اور وہ منسوخ بھی نہیں ہو سکتا اس لیے کہ خبر ہے۔ لہٰذا انبیاء ورسل نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی بتایا وہ مقبول ہوگا اور اس پر ایمان لانا واجب ہوگا۔ مثلاً جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا:﴿فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰیo﴾ (طٰہٰ: ۵۱) ’’قرون اولیٰ کا کیا حال ہوا؟‘‘ تو انہوں نے فرمایا:
Flag Counter