فصل:
ایمان کے بارے میں
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَمِنْ اُصُوْلِ اَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ اَنَّ الدِّیْنَ وَالْاِیْمَانَ قَوْلٌ وَ عَمَلٌ۔))
ایمان کی تعریف لغوی اور شرعی اعتبار سے
’’اہل السنہ والجماعہ کا ایک اصول یہ ہے کہ دین اور ایمان قول وعمل کا نام ہے۔‘‘
شرح:…[الدِّیْنَ] … وہ چیز جس کے ساتھ انسان کو بدلہ دیا جائے یا جس کے ساتھ وہ بدلہ دے۔ اس کا اِطلاق عمل پر بھی ہوتا ہے اور جزا پر بھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ثُمَّ مَا اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ﴾ (الانفطار:۱۸) ’’پھر تجھے کیا معلوم کہ کیا ہے دن جزا وسزا کا۔‘‘ میں دین سے مراد جزا ہے اور ﴿وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ:۳) ’’اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کرلیا۔‘‘ میں دین سے مراد ایسا عمل ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے۔
کہا جاتا ہے: کما تدین تدان، ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ ‘‘
اس جگہ مؤلف رحمہ اللہ کے کلام میں دین سے مراد عمل ہے۔
’’الایمان‘‘ اکثر علماء کے نزدیک لغت میں ایمان تصدیق سے عبارت ہے۔
مگر ان کا یہ قول محل نظر ہے اور یہ اس لیے کہ (تصدیق) متعدی بنفسہ ہوتا ہے، جبکہ (ایمان) متعدی بنفسہ نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ صدقتہ کہہ سکتے ہیں مگر آمنتہ نہیں کہہ سکتے، بلکہ آپ کہیں گے: آمنت بہ، یا آمنت لہ اس بنا پر ہم ایسے فعل لازم کی جو صرف حرف جر کے ساتھ متعدی ہوتا ہو، اس متعدی فعل کے ساتھ تفسیر نہیں کرسکتے جو بنفسہ مفعول بہ کو نصب دیتا ہو۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ لفظ (صدقت) لفظ (آمنت) کا معنی نہیں دیتا اس لیے کہ (آمنت) (صدقت) سے زیادہ طمانیت کا فائدہ دیتا ہے۔
لہٰذا اگر ایمان کی تفسیر اقرار کے ساتھ کی جائے تو یہ زیادہ مناسب رہے گا۔ اس بناء پر ہم کہیں گے: ایمان اقرار سے عبارت ہے۔ اور تصدیق کے بغیر اقرار نہیں ہوتا۔ ہم کہتے ہیں : اقربہ وآمن بہ اسی طرح اقرلہ وآمن لہ۔ یہ بات تو تھی لغت کے اعتبار سے۔
جہاں تک اس کے شرعی معنی کا تعلق ہے، تو اس بارے میں مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
[قَوْلٌ وَ عَمَلٌ۔] … یہ ایمان کی مجمل تعریف ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
((قول القلب واللّسان وعمل القلب واللّسان والجوارح۔))
|