منفرد ہونے پر ایمان نہ رکھنے والا بھی مومن نہیں ہے۔ اسی طرح ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی ایمان ہے وہ ربوبیت والوہیت میں بھی اللہ تعالیٰ کے واحد ویکتا ہونے پر ایمان رکھتا ہے مگر اس کا اس کے اسماء وصفات پر ایمان نہیں ہے، تو یہ شخص بھی مومن نہیں ہے۔ اسماء وصفات کے انکار کے حوالے سے بعض صورتوں میں ایمان کلیتاً مسلوب ہو جاتا ہے، جبکہ بعض صورتوں میں کمال ایمان سلب ہو جاتا ہے۔
وجود باری تعالیٰ پر ایمان
سوال: وجود باری تعالیٰ کی دلیل کیا ہے؟
جواب: وجود باری تعالیٰ کے دلائل ہیں : عقل، حس اور شرع، یہ تینوں وجود باری تعالیٰ پر دلالت کرتے ہیں ، ان پر دلیل فطرت کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ادلہ ثلاثہ میں شرع کو موخر کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ تقدیم کا استحقاق نہیں رکھتی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں سے مخاطب ہیں جن کا شرع پر ایمان نہیں ہے۔
وجود باري تعالي پر عقلی دلیل:
کیا اس کائنات کا وجود خود متحقق ہوگیا یا یہ اچانک ہی معرض وجود میں آگئی؟
اگر یہ کہا جائے کہ یہ از خود ہی معرض وجود میں آگئی تو یہ عقلاً محال ہے، جب یہ معدوم تھی تو پھر وجود میں کیسے آگئی؟ معدوم جب تک وجود میں نہ آجائے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، جب کائنات کا کوئی وجود ہی نہیں تھا تو اس کا اپنے آپ کو معرض وجود میں لانا ممکن ہی نہیں تھا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ اچانک وجود میں آگئی تو یہ بھی محال ہے۔
وجود باری تعالیٰ کے منکر! کیا یہ میزائل، ہوائی جہاز، گاڑیاں ، کاریں اور مختلف قسم کے دیگر آلات اتفاقاً ہی معرض وجود میں آگئے تھے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر یہ حجر وشجر، شمس وقمر، ندیاں نالے، دریا اور پہاڑ وغیرہا بھی اتفاقاً وجود پذیر نہیں ہو سکتے تھے، یہ نہ پہلے ممکن تھا اور نہ آئندہ کبھی اس کا امکان ہوگا، بیان کیا جاتا ہے کہ اہل ہند سے دہریہ قسم کے کچھ لوگ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے وجود باری تعالیٰ پر مناظرہ کرنے کی غرض سے آئے تو آپ نے انہیں ایک دو دن بعد آنے کو کہا۔ یاد رہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا شمار ذہین ترین علماء میں ہوتا ہے۔ وہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ آپ نے فرمایا: میں خوردنی اشیاء اور دیگر سامان تجارت سے بھری کشتی کے بارے میں سوچ رہا ہوں ، جو پانی کی لہروں کو چیرتی ہوئی آئی اور بندرگاہ پر آکر ٹھہر گئی۔ سامان نیچے اتار کر وہ واپس چلی گئی اس میں نہ تو اس کا کوئی کپتان تھا اور نہ ہی مزدور۔ وہ کہنے لگے: آپ یہی کچھ سوچ رہے تھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، وہ کہنے لگے پھر تو آپ میں عقل نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ کشتی کا از خود بندرگاہ پر لنگر انداز ہونا پھر اس سے از خود سامان کا اتر جانا اور پھر اس کا واپس لوٹ جانا، یہ سب کچھ غیر معقول ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ تو تمہارے نزدیک غیر معقول ہے مگر یہ معقول کیسے ہے کہ آسمان، ستارے، سیارے، پہاڑ، درخت، دریا، سمندر اور لوگ بغیر کسی صانع کے ہی وجود میں آگئے؟ اس پر انہیں پتہ چل گیا کہ یہ شخص ہماری عقلوں سے مخاطب ہے جس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے۔
کسی بادیہ نشیں شخص سے پوچھا گیا: تو نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ اس نے کہا: نشان قدم چلنے پر دلالت کرتا اور مینگنی
|