ارشاد باری: ﴿بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾ (المائدہ:۶۴) میں تو تاویل کی بنیاد پر دوہاتھوں سے نعمت مراد لینا ممکن ہے لیکن ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾سے یہ مراد لینا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے جبکہ ان دونوں آیتوں میں مذکور دو ہاتھوں سے قوت مراد لینا ممتنع ہے، اس لیے کہ قوت میں تعدد نہیں ہوتا۔
رابعاً: اگر ہاتھ سے قوت مراد لی جائے تو پھر آدم کو ابلیس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں رہتی، بلکہ ساری مخلوق کے کسی فرد پر بھی انہیں کوئی فضیلت حاصل نہیں رہتی، اس لیے کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ کی قوت سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔اگر ہاتھوں سے مراد قوت ہی ہو تو پھر ابلیس کے خلاف احتجاج درست قرار نہیں پاتا۔ اس لیے کہ ابلیس کہہ سکتا تھا کہ میرے رب! اگر تو نے آدم کو اپنی قوت سے پیدا کیا ہے تو تو نے مجھے بھی تو اپنی قوت سے ہی پیدا کیا ہے، اسے مجھ پر فضیلت کیونکر حاصل ہے؟
خامساً: جس ہاتھ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے اور اس کا ذکر ایسی مختلف وجوہ پر ہوا ہے کہ اس سے نعمت یا قوت مراد لینا ممتنع ہے، مثلاً اس کی انگلیوں کا ذکر ہوا ہے اسے کھو لنے اور بند کرنے کا ذکر ہوا ہے، اور اسے دایاں کہا گیا ہے۔ یہ سب چیزیں اس سے قوت مراد لینے کے راستے میں رکاوٹ ہیں ، اس لیے کہ قوت کو ان اوصاف کے ساتھ موصوف نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ بات واضح ہو گئی کہ محرفین کا یہ قول متعدد وجوہ کی بناء پر باطل ہے کہ ہاتھ سے مراد قوت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے دو آنکھوں کا اثبات
٭ مؤلف رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے دو آنکھوں کے لیے تین آیات ذکر کی ہیں :
پہلی آیت: ﴿وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا﴾’’اپنے رب کے حکم پر صبر کیجئے، یقینا آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔‘‘
شرح: …خطاب اس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو رہا ہے۔
لغت میں صبر، حبس کے معنی میں ہے۔ اسی سے عربوں کا یہ قول ہے: قُتِلَ صبرًا یعنی اسے اس حال میں قتل کیا گیا کہ اسے قتل کرنے کے لیے محبوس کر دیا گیا تھا۔
جبکہ شرع میں اس کا معنی ہے: اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے نفس پر روک لگائے رکھنا۔
اللہ تعالیٰ کے احکام کی دو قسمیں ہیں : شرعیہ اور کونیہ، احکام شرعیہ سے مراد اوامر و نواہی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنااوا مرپر صبر کرنا، جبکہ اس کی معصیت سے صبر کرنا، نواہی سے صبرک رنا ہے۔ اور احکام کونیہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی اقدار ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدر پر صبر کرنا۔
بعض لوگوں کے اس قول کا یہی معنی ہے، صبر کی تین قسمیں ہیں : اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا، اس کی معصیت سے صبر کرنا اور اللہ تعالیٰ کی تکلیف دو اقدار پر صبر کرنا۔
|