Maktaba Wahhabi

489 - 552
[وثابت بن قیس بن شماس] …ان کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطباء میں ہوتا ہے۔ آپ بڑے بلند آواز تھے، جب اس ارشاد ربانی کا نزول ہوا: ﴿ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo﴾ (الحجرات:۲) ’’اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچا مت کرو، اور ان سے اس طرح زور سے بات نہیں کرو جیسے ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں اور تم کو شعور بھی نہ ہو۔‘‘ تو وہ گھر میں چھپ گئے انہیں یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں میرے اعمال ضائع نہ ہو جائیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گم پایا تو ان کی طرف ایک آدمی کو بھیجا کہ ان سے یوں چھپ جانے کے بارے میں دریافت کرے۔ اس پر وہ یہ آیت پڑھتے ہوئے کہنے لگے۔ میری آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی ہو جائے گی۔ میرے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ میں جہنم میں چلا جاؤں گا، وہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ثابت کی بات سے مطلع کیا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے پاس جا کر اسے بتا دو کہ تو جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہے۔‘‘[1] اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جنت کی خوشخبری سنادی۔ [وغیرہم من الصحابۃ۔] …مثلا امہات المومنینؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ جن میں بلال، عبداللہ بن سلام عکاشہ بن محصن او ر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں ۔[2] اُمت کے بہترین افراد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( ویقرون بما تواتربہ النقل عن أمیرا لمو منین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وغیرہ، من ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیتہا ابو بکر رضی اللہ عنہ ثم عمر رضی اللہ عنہ ۔))
Flag Counter