﴿وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًاo﴾ (النساء: ۱۱۳)
’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب وحکمت اتاری اور آپ کو وہ کچھ سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی یہ خاص ترین نعمت انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے اس میں اہل ایمان ان کے شراکت دار نہیں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ لوگوں کا راستہ
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(( صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ۔))
شرح:…مؤلف کا یہ قول اس ارشاد باری تعالیٰ جیسا ہے:
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمْo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْo﴾ (الفاتحہ: ۵۔۶)
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کن لوگوں پر انعام فرمایا؟ تو اس کی اللہ تعالیٰ نے یوں وضاحت فرمائی ہے:
﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ﴾ (النساء: ۶۹)
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو یہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین پر۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی عام اور خاص نعمتیں
یہ چار قسم کے لوگ ہیں جن کی تفصیل اس طرح سے ہے:
اولاً: انبیاء کرام علیہم السلام ، یعنی وہ لوگ جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی اور انہیں خبریں فراہم کیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی حکم کے تحت آتے ہیں ، اس لیے کہ ہر رسول نبی ہوا کرتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوا کرتا، اس بناء پر انبیاء کا اطلاق رسولوں پر بھی ہوتا ہے وہ اولوالعزم ہوں یا غیر اولی العزم، یہ مخلوق کی اعلیٰ ترین صنف ہے۔
ثانیا: صدیقین، یہ فعیل کے وزن پر صدیق کی جمع ہے اور یہ مبالغہ کا صیغہ ہے۔
قرآن مجید میں اس کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے:
﴿وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ﴾ (الزمر: ۳۳)’’اور وہ جو صدق لے کر آیا اور اس کی تصدیق کی۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:
|