ان تک نہ پہنچ سکا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی گردن اڑانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ جنگ بدر میں شریک ہوا تھا، اور تجھے نہیں معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کی طرف دیکھا، اور فرمایا: اب تم جیسے چاہو اعمال کرو، میں تمہاری مغفرت فرما چکا۔‘‘[1]
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((حتی إنہ یغفر لہم من السیآت مالا یغفر لمن بعد ہم، لان لہم من الحسنات التی تمحوا السیأت مالیس لمن بعد ہم، وقد ثبت بقول رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : انہم خیر القرون، وان المدّ من احدہم اذاتصدق بہ، کان أفضل من جبل أحد ذہباً من بعد ہم۔))
’’یہاں تک کہ ان کے وہ گناہ بھی معاف کر دیئے جاتے ہیں جو ان کے بعد آنے والوں کے معاف نہیں کیے جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ثابت ہے کہ وہ بہترین زمانہ کے لوگ ہیں ، اور یہ کہ ان میں سے کسی ایک کا مد یا نصف مد بھر صدقہ بعد میں آنے والوں کے اُحد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے افضل ہے۔‘‘
شرح:…اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ہے: ’’سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں ۔‘‘[2] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں: ’’میرے صحابہ کو سب و شتم نہیں کرو، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا کوئی ایک جبل احد کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان کے کسی ایک کے مدّکو پہنچ سکتا ہے اور نہ نصف مدّ کو۔‘‘[3]
اللہ تعالیٰ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو معاف کر دیا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ثم اذا کان قد صدر من أحد ہم ذنب، فیکون قد تاب منہ۔))
’’پھر جب ان میں سے کسی ایک سے کوئی گناہ صادر ہوا، تو ہو سکتا ہے کہ اس نے اس سے توبہ کرلی ہو۔‘‘
شرح:…یعنی جب اس نے اس سے توبہ کر لی، تو اس کی یہ لغزش معاف ہو گئی اور س کا وبال ختم ہو گیا۔ اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاo یُضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا oاِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا o ﴾ (الفرقان:۷۰۔۶۸)
|