Maktaba Wahhabi

356 - 552
نہ تو تناقض کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ اختلاط کا متقاضی ہوتا ہے، تو پھر آیات معیت کو ان کے ظاہر پر محمول کرنا صحیح کیوں نہیں ہے؟ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقتاً ہمارے ساتھ ہے اگرچہ وہ آسمانوں پر ہر چیز کے اوپر ہے۔ جس طرح کہ ہم نے پہلے بھی کہا: اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ یہ مخلوق میں ممتنع ہے، تو خالق میں ممتنع نہیں ہے، رب کائنات آسمان میں بھی حقیقتاً ہے اور ہمارے ساتھ بھی حقیقتاً ہے اور اس میں کوئی تناقض نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر وہ علو میں دور ہے تو وہ اس علو کے باوجود قریب بھی ہے۔ معیت برحق اور حقیقتاً ہے، شیخ محمد بن ابراہیم کی تقریر شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں میں اسی معنی کی تائید وتوثیق کی ہے، آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس آیت کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے ظاہری معنی میں ہے، ہمارا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں اپنے عرش پر ہے اور وہ حقیقتاً ہمارے ساتھ بھی ہے، جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ علو میں بھی ہے اور حقیقتاً آسمان دنیا پر بھی نزول فرماتا ہے، اہل سنت میں سے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا، ان تمام کے نزدیک اللہ تعالیٰ حقیقتاً نزول فرماتا ہے اور وہ علو میں بھی ہے، اس لیے کہ خالق کی صفات مخلوق کی صفات جیسی نہیں ہیں ۔ شیخ محمد بن ابراہیم بھی اسی معنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معیت اپنی حقیقت پر مبنی ہے، اس سے اس کا اپنی مخلوق کے ساتھ اختلاط لازم نہیں آتا اور نہ اس کا زمین میں ہونا لازم آتا ہے، انہوں نے یہ بات بعض سلف کے اس قول کے جواب میں کہی کہ: ’’اللہ تعالیٰ اپنے علم کی رو سے لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘[1] سوال : کیا یہ کہنا درست ہے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے؟ جواب : اس لفظ سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ اس سے ایک ایسے غلط معنی کا تاثر پیدا ہوتا ہے جس کو حلول کے قائلین دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ، اس لیے کہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس بھی چیز کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے وہی اس کی طرف منسوب ہوتی ہے، کیا ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَجَائَ رَبُّکَ ﴾ کے بارے میں یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ آتا ہے؟ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ینزل ربنا الی السماء الدنیا۔[2] کے بارے میں یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ نزول فرماتا ہے؟ یقینا ہمیں ایسا کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَہُوَ سُبْحَانَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ ، رَقِیْبٌ عَلٰی خَلْقِہِ ، مُہَیْمِنٌ عَلِیْمٌ ، مُطَّلِعٌ عَلَیْہِمْ۔)) ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے عرش پر ہے، اپنی مخلوق پر نگہبان ہے، ان پر حاکم ہے اور ان پر مطلع ہے۔‘‘ شرح:…[وَہُوَ سُبْحَانَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ ] … اگرچہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، مگر وہ مخلوق کے ساتھ بھی ہے۔
Flag Counter